ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
دارالعلوم کا سن وار حال بیان ہورہا تھا۔ ١٢٩٢ھ تک کا حال گزر چکا ہے ۔اس کے بعد : ١٢٩٣ھ میں فتاوٰی کا آغاز ہوا اور انبہٹہ مظفر نگر گلارٹھی ضلع بلند شہر میں تین مدارس بایماء حضرت نانوتوی قائم ہوئے ،تینوں کا دارالعلوم سے الحاق کیا گیا ۔ ١٢٩٤ھ میں ُترک مجروحین کے لیے طلبہ نے چندہ کرکے بھیجا یہ ترک مجروحین اور یتامیٰ ٧٧۔ ١٨٧٨ء میں روس اور ترکی کے درمیان جنگ میں مجروح اور یتیم ہو ئے تھے اس سے پہلے سال بھی دارالعلوم سے انہیں چندہ بھیجا گیا تھا اس سال کے آخر میں حضرت مولانا نانوتوی، مولانا محمد یعقوب صاحب ،مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم، مولا نا محمود حسن صاحب حج کے لیے روانہ ہوئے ۔ فرائض ِاہتمام حاجی فضل حق صاحب نے انجام دیے۔ ١ ١٢٩٥ھ میں فضلاء دیوبند نے ثمرة التربیت کے نام سے ایک جماعت قائم کی کہ ہر فارغ شدہ سال میں ایک ماہ کی تنخواہ مدرسہ کودے۔ ١٢٩٦ھ یکم صفر کو جلسہ تقسیم انعام ہوا، اس موقع پر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا : ''خداوند کریم کا شکرکس زبان سے ادا کیا جائے کہ تیرہواں سال اس مدرسہ کاجس کو دارالعلوم کہنا بجا ہے بخیر و خوبی پورا ہوا ، الخ'' ۔ اس کے بعد سے مدرسہ کے بجائے اسے دارالعلوم (یونیورسٹی) کہا جانے لگا۔ اسی سال دارالعلوم میں تعلیم طب کا آغاز ہوا۔ ١٢٩٧ھ حضرت اقدس نانوتوی قدس سرہ ٤ جمادی الاولیٰ بروز پنجشبہ بعمر ٤٩ سال وصال ہوا ۔ تغمدہ اللّٰہ برحمة ورضوانہ ۔ آمین۔ رُوداد دارالعلوم میں اراکینِ دارالعلوم کی طرف سے تحریر ہے : ''پندرہویں سال کا ختم ہونا اور سولہویں سال کا شروع ہونا اس قدر باعث خوشی نہیں ہے جس قدراس کے مربی وسرپرست حضرت فخر العلماء مولانا مولوی محمد قاسم رحمة اللہ علیہ کا اس جہان ِفانی سے عالم جاودانی کو تشریف لے جانا باعث حسرت وافسوس ہے الخ۔'' اراکین شورٰی نے آپ کی وفات کے بعد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ کو دارالعلوم کا سرپرست بنایا اور حضرت شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہ نے مکہ مکرمہ سے یہ تحریر فرمایا : ١ تاریخ دیوبند میں بحوالہ بیاض یعقوبی تحریر ہے کہ اس سفر حج میں حضرت گنگوہی مولانا محمد مظہر نانوتوی ، مولانا محمد منیر نانوتوی سمیت تقریباً سو حضرات کا قافلہ تھا ۔( تاریخ دیوبند ص ٤٤٩ )