ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
رونق بخش جلسہ تھے علاوہ اور خلاف باتوں کے خصوصیت کے ساتھ یہ اظہار کیا گیا کہ مدرسہ عربیہ دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ہیں چنانچہ روئیداد سال ١٣٢٠ھ و ١٣٢٢ھ وجلسہ منعقدہ ٦جنوری ١٩٠٥ء سے چند اقتباس درج کیے جاتے ہیں ۔الخ'' اس کے بعد رسالہ کے مرتب نے اپنے دعوے کے ثبوت میں مذکورہ بالا حوالہ جات کی متعدد عبارتیں پیش کی ہیں وہ عبارتیں چونکہ طویل ہیں اس وجہ سے ان کو درج نہیں کیا جارہاہے ۔ بہرحال مندرجہ بالا عبارت سے یہ چیز بخوبی ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی بیسوی صدی عیسوی کے ساتھ ساتھ آئی ہے اس سے قبل کیا تھا اور کاغذات مدرسہ میں بانی کس کو لکھا جاتا تھا اس کے بارے میں رسالہ کے مرتب نے حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب پدربزرگوار حضرت شیخ الہند کا ایک اشتہار (جس کی تاریخ طباعت ٦جمادی الاول ١٣٠٦ھ ہے ) اپنے اس رسالہ میں نقل کیا ہے جس میں حضرت سیّد حاجی عابد حسین صاحب ہی کو مدرسہ عربیہ دیوبند کا بانی قرار دیا ہے۔ اس اشتہار پر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی جیسے اکابر ِہند کے دستخط موجود ہیں۔ ٥۔ حضرت مولانا ذوالفقارعلی صاحب نے اپنی کتاب الھدیة السنیة فی احوال مدرسة الدیوبندیة میں بھی حاجی عابد حسین صاحب ہی کو مدرسہ کا بانی قرار دیا ہے۔ حضرت مولانا ذوالفقارعلی صاحب کی وفات ١٣٢٢ھ میں ہوئی ہے۔ ٦۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم دیوبند کا موجودہ ڈھانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کا ترتیب دیا ہوا تھا جس میں رنگ آمیزی حضرت شیخ الہند اور حضرت شیخ الاسلام نے کی اور اِس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ (تذکرہ شیخ الہند از ص١٣٩ تا ١٤٤) تذکرة العابدین کے مضمون سے یہ بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف تھا ہی نہیں بلکہ اراکین ِشورٰی کی رائے بدل جانے پر خفگی تھی کہ جامع مسجد میںحجروں کا کام کیوں بڑھوایا تھا ۔خفگی جاتی رہی اور راضی ہو گئے اور موجودہ قطعہ خرید کر وقف کیا جس پر سنگ ِبنیاد رکھا گیا۔ملاحظہ ہو مفتی صاحب کا وہ کھیوٹ کا نقشہ جو گزرا۔ ایسے اختلاف ہر جگہ ہوتے رہتے ہیں حتی کہ ایک گھر میں بھی ہوجایا کرتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے'' جہاں برتن ہوتے ہیں کھڑکتے ہیں'' لیکن اس خفگی کو بڑھا چڑھا کر بتلانا بعد کے دور کی بات ہے کسی خاص غرض سے ایسا ہوا ہے اصل اختلاف وہ تھا جو ١٣١٠ھ میں پیش آیا جس کے بعد حاجی صاحب نے مدرسہ کا چارج نہیں لیا اور یکسو ہوگئے۔ مدرسہ چل ہی رہاتھا اور انہیں ناموری مطلوب نہ تھی اور یہ حضرت نانوتوی کی وفات سے تیرہ سال بعد کی بات ہے پھر بھی جو اُس بعد کے دور کی اختلافی باتیں سنی جاتی ہیں تووہ اِس قسم کی ہی سمجھنی چاہئیں جیسی بعض جگہ بزرگوں کے متعلقین میںپیدا ہوجاتی ہیں۔