ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے : مندرجہ بالا عنوان علامہ اقبال مرحوم کے مشہور شعر کا ایک مصرع ہے، پورا شعر اس طرح ہے : ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے یہ شعر علامہ اقبال نے تاتا ریوں میں اشاعتِ اسلام سے متعلق کہا تھا ۔ساتویں صدی ہجری میں فتنۂ تاتار کسی قیامت سے کم نہ تھا ،تاتاری عالم اسلام کوبری طرح روندتے چلے جا رہے تھے قریب تھا کہ سارا عالمِ اسلام اُن کے سیلاب میں بہہ جائے اور اسلام کا نام ونشان مٹ جائے کہ دفعتہ تاتاریوں میں اشاعتِ اسلام شروع ہوگئی اور جو کام مسلمانوں کی شمشیر یں او ر مسلمان بادشاہ نہ کرسکے وہ اسلام کے داعیوں اور خدا کے مخلص بندوں نے انجام دیا۔ چنگیز خان کی سلطنت انتقال کے بعد اس کے چار بیٹوں کی چار شاخوںمیں بٹ گئی تھی : (١) سب سے بڑے بیٹے اوکتائی بن چنگیز خان کی شاخ جو تاتاری سلطنتِ عظمیٰ کے مشرقی حصہ پر قابض تھی۔ (٢) جوجی بن چنگیز خان کی شاخ جو سلطنت کے مغربی حصہ ''سیرا داور'' پر حکمران تھی ۔ (٣) چغتائی بن چنگیز خان کی شاخ جو بلادمتوسطہ(ماوراء النہر، خوازم،کا شغر،بدخشاں ،بلخ ،غزنیںوغیرہ )پر قابض تھی۔ (٤) سب سے چھوٹے بیٹے تولی بن چنگیز خان کی شاخ جس کی سلطنت دولتِ ایلخانیہ کے نام سے موسوم تھی ۔(ہلاکو خان اسی کا بیٹا تھا) ان چاروں شاخوں میں برق رفتاری سے اسلام کی اشاعت ہونے لگی۔ تیسری شاخ میں اشاعتِ اسلام کا سہر ا بخارٰی کے ایک بزرگ مولانا جمال الدین بخاری کے سر ہے ،اس شاخ میں ان کے ہاتھوں اسلام کی اشاعت کا واقعہ عجیب ہے،نذرِ قارئین کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیے۔مولانا طاہر حسن صاحب ناقل ہیں : ''تاتاریوں کے ہلاکت خیز زمانہ میں جب خراسان ،ماوراء النہروغیرہ میں اسلامی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی اور علماء اسلام کی زندگی دوبھر کردی گئی ،ایک بزرگ جن کا نام مولانا جمال الدین تھا، اپنا وطن(بخارا) چھوڑ کر کاشغر سے تین سومیل بجانب مشرق ایک آبادی میں جس کا نام'' آق سو ''تھا داخل ہوئے۔یہاں اس زمانہ میں ایک تاتاری حکمران تغلق تیمور خان حکمران تھا۔ ایک مرتبہ یہ شکار کے لیے نکلاراستہ میں ایک جگہ قیام کیا۔ مولانا جمال الدین اور اُن کے ساتھیوں نے نماز کے لیے اذان دِلوائی ،خان کی نیند میں خلل پڑا ۔اس نے غضب ناک ہو کر حکم دیا اور یہ گوشہ نشین