ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
جدید دفترجمعیة علماء ہند : آپ نے متعدد مساجدواگزار کرائی تھیں جن میں ایک مسجد'' عبدالنبی'' تھی جو نئی دہلی میں ہے اس سے ملحق کافی جگہ تھی۔وہاں آپ کی خواہش تھی کہ جمعیة علماء ہند کا مرکزی دفتر بنائیں ۔جواب بحمداللہ بن گیا ہے ایک شاہی دور کی وسیع مسجد جو تقریباً مسجد فتح پوری کے برابر ہوگی سنگِ سرخ کی بنی ہوئی ہے لبِ دریائے جمنا ہے اس کا نام غالباً حسنِ منظری کے باعث ''گھٹا مسجد'' پڑا ہے انھیں بہت پسند تھی ۔اس کے گرد مکانات بنے ہوئے تھے جن پر شرنارتھیوں کا قبضہ تھا وہ مسجد بھی واگزار کرائی ۔وہاں ایک سہ ماہی تربیتی کورس فضلا ء مدارس کے لیے شروع کیا تھا اور خود ہی پڑھاتے تھے۔ آخری دور کی تصانیف : انہوں نے ہرموضوع پر ایسی کتابیں تحریر فرمائیں جن سے مسلمانوں کو علمی مواد فراہم ہو جائے اور غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت بھی ہو۔ اقتصادیات پر آپ نے ''اسلام کے اقتصادی او ر سیاسی مسائل'' کے نام سے کتاب تحریر فرمائی۔ ٣٨ء میں بھی ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا جس کا نام ہے ''آنے والے انقلاب کی تصویر ''اس میں جو معلومات جمع کی گئی ہیں اور خاکہ مرتب کیا ہے وہ اس دور میں اُن کی نگاہِ دوربین کاشاہکار ہے یہ کتاب اگر چہ زمانہ تحریر کے اعتبار سے پرانی ہے مگر مضمون کے لحاظ سے جدید ہے۔ ایک ضخیم کتاب ''سیرتِ مبارکہ ''کے نام سے سیرت پر لکھی ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب غیر مسلموں کو دعوت دینے ہی کے لیے لکھی ہے ،اسی لیے اسے سب سے پہلے ''انسان''کے عنوان سے شر وع کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ عجیب معلومات سے پُر ہے۔اس کے بارے میں عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں : ''کتاب جس قدر لوازمِ ظاہر کے لحاظ سے خوشنما اور دلفریب ہے اسی قدر معنوی حیثیت سے قابلِ داد اور اعلیٰ ہے ،سیرتِ مبارکہ پر بڑی چھوٹی کتابیں اب تک اردو میں بے شمار لکھی جا چکی ہیں اور بعض بڑی بلند پایہ ہیں (مثلاً شبلی وسلیمان کی سیرت النبی)لیکن یہ سب سے نرالی سب سے انوکھی سب سے البیلی ہے ۔فاضلانہ مگر خشک مطلق نہیں مختصر مگر مجمل کہیںسے نہیں ۔مفصل مگر بارِخاطر کہیں سے بھی بننے والی نہیں ۔عام پسند مگر عامیانہ ہونے کے شائبہ سے بھی پاک، نُدرت سے لبریز مگر غَرَابت واجنبیت سے سراپا پرہیز وگریز ،اسلوبِ بیان ایسا کہ بغیر دیکھے اور پڑھے اس کا ذہن میں آنا دُشوار ہے ۔کتاب تمام تر بیسیوں صدی کے ناظرین کو پیشِ نظر رکھ کر