ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
ہیں ؟ قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ،یہ تفصیل فرمان ِخدا اور فرمانِ رسول سے ثابت نہیںہے۔یہ ساری تفصیل اجماع سے ثابت ہے اجماع اُمّت ہے کہ ظہر کی چار رکعت فرض باقی سنت ،عصر کی چار رکعت فرض باقی سنت، مغرب کی تین رکعت فرض باقی سنت ،عشاء کے چار فرض ہیں تین وترواجب یا سنت ہیں باقی رکعات سنت ہیں فجر میں دورکعت سنت اور دو رکعت فرض ہیں ۔پھر سنت رکعات میں سے کتنی رکعات اور کون کون سی رکعات سنت مؤکدہ ہیں اور کون سی سنتِ غیرمؤکدہ ہیں ؟ سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں ادائیگی کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟اگر سنت مؤکدہ فوت ہوجائیں اور فرض پڑھ لیں تو اکیلی سنتوں کی قضا ہے یا نہیں؟آخری تینوں اُمور قیاس شرعی سے ثابت ہیں سنت غیر مؤکدہ چار رکعت ہوں تو صرف درمیان والے قعدہ میں سلام نہیں پھیرنا ورنہ بعد والی دورکعت بھی پہلی دو رکعت کی طرح پڑھنی ہیں یعنی درمیان والے قعدہ میں تشہددرود اور دُعا تک پڑھ کر بغیر سلام پھیرے تیسری رکعت کی طرف کھڑے ہو کر نماز ثنا سے شروع کریں جبکہ سنت غیر مؤکدہ میں درمیان والے قعدہ میں درود ودُعاء نہیں پڑھے جاتے اور تیسری رکعت کوثنا سے نہیں شروع کیا جاتا ،فجر کی سنتوں کی زوال تک قضا ہے اس کے بعد قضا نہیں اورباقی سنتوں کی قضا نہیں ہے یہ بھی واضح رہے کہ چونکہ اجماع وقیاس کاحجت ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے اور کتاب وسنت نے ہی اجماع وقیاس کی طرف رہنمائی کی ہے ......... اس لیے کتاب وسنت کے ساتھ اجماع وقیاس کا اعتبار کرنے سے اگر دین مکمل ہوتاہے تو اس سے کتاب وسنت کا ناقص ہونا لازم نہیں آتا بلکہ کتاب وسنت کا کامل ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ دعوت الی الحق : منکرین ِحدیث جو قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرتے ہیں دین کے لیے قرآن کو کافی قرار دیتے ہیں اور اپنا لقب ''اہلِ قرآن ''رکھتے ہیں نیز منکرین ِفقہ یعنی اہلِ حدیث جو حدیث کا نام لے کر اجماع ،قیاس شرعی اور فقہ کا انکار کرتے ہیں اپنے آپ کو'' اہلِ حدیث ''کے نام سے موسوم کرتے ہیںاور اُن کا دعویٰ و نعرہ ہے اہلِ حدیث کے دواصول فرمانِ خدا فرمانِ رسول ۔ہم ان دونوں فرقوں سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ لوگ اکمالِ دین کا دعوٰی بھی کرتے ہیں اور شریعت کے اصول اربعہ کا انکار بھی کرتے ہیں اگرآپ حضرات اکمالِ دین کے دعوٰی میں سچے ہیں تو اس کا تقاضا ہے کہ اصولِ اربعہ کو مان لیں اور اگر اصول اربعہ کے انکار پر اصرار ہے تو پھر اکمالِ دین کے دعوٰی سے دستبردار ہو جائیں کہ اصولِ اربعہ میں سے تین یا دو کے انکار کے بعد اکمالِ دین ناممکن ہے اور مضحکہ خیز ہے۔