ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
فعلیک یا اخی بتوجیہ القلب الی الذات البحت مھما امکن فان ذکر اللسا ن لقلقة وذکرالقلب وسوسة وذکر الروح ھوا لذکر۔ لہٰذا برادرِ من تم پر لازم ہے کہ جہاں تک ہو سکے ذات بحت مقدسہ کی طرف دل کو متوجہ رکھو۔ یہ مکتوب گرامی ١٩ربیع الاول ٦٣ھ کا ہے۔ پھر مکتوب گرامی نمبر١٤ میں اس کی مزید تشریح فرماکر بتلا دیا ہے : اما الذکر الروحی فذالک التوجہ بالقلب الی الذات البحتة التی متنزھة عن الکم والکیف وسائر الا عراض ۔الخ ذکرِ رُوحی قلب کی توجہ کا نام ہے حضرت ِحق جل مجدہ کی ذاتِ خاص کی طرف ،جو کم اور کیف اور جملہ اعراض سے منزہ ہے۔ اسلام میں سب سے بڑی نعمت اس مراقبہ کا حصول ہے اسی کا نام معرفت ہے یہی وصول الی اللہ ہے یہی سلوک کا آخری سبق ہے یہیں سے'' سیر فی اللہ'' شروع ہوتی ہے خداوند کریم نے ان کو اس نعمت عظمیٰ سے نوازا تھا خدا کرے اب عالمِ آخرت میں بھی اس ''صلاة '' کا سلسلہ جاری ہو۔ تعلیمی اشغال مدارس سے شغف : جولائی ٥٥ ء میں حضرت مولانا عبدالحق صاحب مدنی مہتمم جامعہ قاسمیہ مراد آباد کی وفات کے بعد سے والد ماجد رحمة اللہ علیہ کواہلِ مراد آباد نے وہاں کامہتمم مقرر کیا ۔یہ اہلِ مرادآباد کی محبت اور تعلق ہی تھا ۔آپ نے آخری وقت تک اسے نباہا ۔بحمداللہ مدرسہ بھی ترقی کرتا رہا آپ نے وہاںلبِ دریا ایک وسیع جگہ لے کر''ادارہ حفظ الرحمن'' جامعہ قاسمیہ ومدرسہ شاہی کے تحت وسیع پیمانہ پر قائم کیا۔ وہاں ہی آج کل مولانا ارشد صاحب ابن حضرت مولانا مدنی قدس سرہ تقریباً چار سال سے کا م کررہے ہیں ۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ ناظم عمومی جمعیة علماء ہند منتخب ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد اس عہدہ سے کنارہ کش ہوگئے تھے ۔علمی اور تصنیفی مشاغل زیادہ کردیے تھے ،پھر مراد آباد کے علاوہ دہلی کے چار مدارس کا اہتمام بھی آپ کے سپرد تھا ۔ادارہ المباحث الفقہیہ کے رئیس اوراوقاف جمعیة کے چیئرمین تھے دارالعلوم دیوبند کی شورٰی اور عاملہ کے رکن تھے۔ وہاں بھی بیشتر شورٰی وغیرہ کی کارروائیاں ان کے دستِ مبارک سے لکھی جاتی تھیں۔مدرسہ امینیہ کے شیخ الحدیث تھے بخاری شریف اور ترمذی شریف کے علاوہ ہدایہ اخیرین بھی پڑھاتے تھے وہاں کے صدر مفتی تھے یہ سب کام اخیر وقت تک جاری رہے ۔افتاء کاکا م جو مراد آباد میں او رمدرسہ امینیہ میں انجام دیا ہے نیز