ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد! کافی عرصہ سے اخبارات میں فوجی حکمرانوں اور ملک کے مذہبی اور سیاسی حلقوں کے مابین پاکستانی فوج کو عراق بھیجنے کے مسئلہ پر لے دے چل رہی ہے فوجی حکمران امریکہ نوازی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ افغانستان کے بعد عراق میں امریکی افواج کی اسلام اور مسلمان دُشمن اعلانیہ خونی کار روائیوں کے باوجود صلیبیوں سے احتجاج تو درکنار اُن کی منشاء سے معمولی سی پہلو تہی پر بھی تیار نہیں ہیں ۔حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ عراق میں امریکی اور برطانوی افواج صلیبی اور صیہونی عزائم لے کر حملہ آور ہوئی ہیں اور اپنے مذموم عزائم کی تکمیل سے پہلے واپسی کو وہ اپنے لیے شکست تصور کرتی ہیں ،اسی شکست سے بچنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ مسلم ممالک کی افواج کو قیامِ امن کے نام پر اپنا شریکِ کار بنانا چاہتے ہیں تاکہ مسلم افواج سے اپنے لیے ڈھال کا کام بھی لے لیا جائے اور مسلمان کو مسلمان سے ٹکرابھی دیا جائے اور یوں دونوں طرف سے بہنے والا خون مسلمان ہی کا ہو اور مفادات عیسائی اور یہودی حاصل کر یں ۔ کفار کی اس قسم کی چالیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ قدیم سے حق کے خلاف اُن کی چالبازیاں اسی قسم کی ہوتی ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے مسلمان زندہ تھا اس کی سوچ زندہ تھی مذہب سے وفاداری زندہ تھی ایمانی غیرت زندہ تھی وہ حق وباطل کی خوب تمیز رکھتا تھا اس لیے خود بخود کفر مرعوب ومغلوب تھا وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرتا تھا مگر آج کا مسلمان بدل چکا صفحہ نمبر 4 کی عبارت ہے وہ کفر کے فریب میں پھنس چکاہے اس فریب سے نکلنا بظاہر اس کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتا اس لیے کہ اپنی ''خودفریبی''پر وہ ''دِل گرفتہ''ہونے کے بجائے خود کو ''فاتح''تصورکرتا ہے''شکست''کو ''فتح''قرار دینے والے قوم وملت کے قائد قرار پا چکے ہیںاس سے زیادہ ''پستی''مسلم قوم نے شاید اس سے پہلے نہ دیکھی ہوگی۔ مگر ہم پھر بھی حق بات کہنا اپنا فرض سمجھتے ہوئے فوجی حکمرانوں کو ایک بار پھر خبر دار کرتے ہیں کہ افواجِ پاکستان کو اس موقع پر عراق بھیجنا '' فعلِ کفر''ہے اس صورت میں دنیا کی بربادی کے ساتھ ساتھ آخرت کی بربادی کا