ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
(د) حسن کہتے ہیں کہ میں ازواج مطہرات کے گھروں میں جایا کرتا تھا اور ان کے گھروں کی چھتوں سے ہاتھ لگا لیا کرتا تھا۔ ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حسن کا نشوونما مدینے میں ہوا ۔پھر ابن سعد کا یہ لکھ دیناکہ ان کا نشوونما وادی القری میں ہوا ،جبکہ اس کی تائید میں ایک لفظ بھی نہ لکھا ہو، ناقابلِ فہم ہے۔ ابن سعد (م ٢٣٠ھ )چونکہ مقدم ترین مآخذ ہیں اس لیے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انھوںنے یہ لکھ دیا کہ حسن کانشوونما وادی القری میں ہوا تو ان کے بعدوالوں میںسے ابن قتیبہ (م٢٧٦ھ) ابن خلکان (م٦٨١ھ) کرمانی (م٧٨٦ھ) اور ابن حجر (م٨٥٢ھ)نے بھی انہی کی پیروی کی لیکن ان حضرات میں سے بھی کسی نے کوئی واقعہ ایسا نہیں لکھا جس سے حسن کا وادی القری میں نشوونما پانا معلوم ہوتا ہو۔ ابن حجر نے وادی القری میں نشوونما کے ذکر کے ساتھ ابوزرعہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ حسن نے علی کو مدینہ میں دیکھا اور جب علی کوفہ اور بصرہ کی طرف چلے گئے تو اس کے بعد حسن کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی ٢ ،اسی طرح ابن مدینی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ''حسن نے علی کو نہیں دیکھا البتہ جب علی مدینہ میں تھے تو حسن کم عمر (غلام )تھے''۔ ٣ یہ دونوں روایتیں ابن حجر کے قول کے برخلاف کہ حسن نے وادی القری میں نشوونما پایا ، ان کے مدینہ میں نشوونما کو بتاتی ہیں۔ ذہبی (م٧٤٨ھ) لکھتے ہیں کہ : ''نشاء بالمدینة وحفظ کتاب اللّٰہ فی خلافة عثمان و سمعہ یخطب بمرات وکان یوم الدار ابن اربع عشرة سنة ٣ '' حسن کا نشوونما مدینہ میں ہوا ، خلافت عثمان کے زمانہ میں انھوں نے قرآن کریم حفظ کیا، کئی بار عثمان کو خطبہ دیتے سنا اور شہادت عثمان کے وقت وہ چودہ سال کے تھے۔ ذہبی کی اس بات سے معلوم ہوتاہے کہ پیدا ہونے کے بعد سے چودہ سال کی عمر کو پہنچنے تک حسن مسلسل مدینے میں رہے اور اس میں وادی القری کا کوئی ذکر نہیں۔ ذہبی نے اپنے پیشرئوں کے خلاف نشأ بالمدینة غالباً اسی لیے لکھا ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوٰی کی واضح شہادتیں موجود ہیں ۔یہ شہادتیں خوداُن لوگوں کے یہاں بھی ملتی ہیں جو وادی القری میں نشوونما کے قائل ہیں ۔ اس کے ١ طبقات ١/٥٠١،٧/١٧١۔یہ روایت بخاری کی ادب المفرد میں موجود ہے(ادب المفرد ١/٥٣٨، باب التطاول فی البیان )۔ ٢ تہذیب ٢/٢٦٦ ٢ا یضاً ٣ تذکرة الحفاظ ١/٧١