ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
برخلاف وادی القری میں نشوونما پانے کی کسی کے پاس کوئی شہادت نہیں۔ اس سلسلہ میں ابن اثیر اور خطیب تبریزی نے جو کچھ لکھا ہے وہ کا فی اہم ہے اور حسن کے نشوونما کے بارے میں جواختلاف ہے،بظاہر اس سے اس اختلاف کے رفع کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ابن ِاثیر جامع الاصول کے فن اسماء الرجال میںحسن کے ترجمہ میںلکھتے ہیں : ''ولد مسنتین یقینا من خلافة عمر بن الخطاب بالمدینة وقدم البصرة بعد مقتل عثمان وقیل انہ لقی علیا بالمدینة واما بالبصرة فان رویتہ ایاء لم تصح لانہ کان فی وادی القری متوجھا نحو البصرة حین قدم علی بن ابی طالب البصرة'' ١ '' عمر بن خطاب کی خلافت کے دوسال باقی تھے کہ حسن مدینہ میں پیدا ہوئے اور شہادت عثمان کے بعد وہ بصرہ آگئے ۔کہا جاتاہے کہ مدینہ میں علی سے ان کا لقأ ہواہے لیکن اس میں کوئی صحت نہیں کہ بصرہ میں حسن نے علی کو دیکھا ہو کیونکہ علی جب بصرہ پہنچے تھے تو اس وقت حسن بصرہ جاتے ہوئے وادی القری میں تھے۔ بالکل یہی بات خطیب تبریزی نے لکھی ہے : بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ،واللہ اعلم کہ شہادت عثمان کے بعد بصرہ جاتے ہوئے ،وادی القری میں حضرت حسن کا قیام اس مدت سے کچھ زیادہ رہا ہے جتنا عام طورپر مسافر راہ میں کسی جگہ قیام کیا کر تے ہیں اسی لیے ابن اثیر نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس وقت وادی القری سے گزر رہے تھے بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ اس وقت وادی القری میں تھے جس سے وادی القری میں ان کا قیام معلوم ہوتا ہے اور بظاہر یہی عارضی قیام ہے جس نے بعض حضرات سے یہ کہلوادیا کہ ان کا نشوونما وادی القری میں ہوا ۔ حضرت حسن جب مدینہ سے بصرہ کے لیے روانہ ہوئے ہیں اس وقت وہ عمر کے پندرھویں سال میں ہیں اور نابالغ ہیںاور یہ ان کے نشوونماہی کا زمانہ ہے۔ اس لیے اگر اس عدم بلوغ اور نشو ونما کے دو ر میں وادی القری کے عارضی مگر نسبتاً طویل قیام کو ''نشأ بوادی القری '' (وادی القری میں نشوونما پائی) سے تعبیر کردیا گیا تو ایسا ہونا بالکلیہ مستبعد نہیں۔ ٢ اور اگر یہ تاویل نہ کی جائے تو اس کی کوئی دلیل نہیں کہ انہوں نے وادی القری میں نشوونما پائی ۔اس کے برخلاف تمام تر دلائل ذہبی ،ابن اثیر اور خطیب تبریزی کے حق میں بھی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے وہیں نشو ونما پائی اور شہادت عثمان کے بعد مدینہ سے روانہ ہو کر وادی القری میں قیام کرتے ہوئے بصرہ پہنچے ۔ ١ قرة ص٣٠١، فخرالحسن ص٥(جامع الاصول کا فن اسماء الرجال آخری جلد میں ہے جو طبع نہیں ہوئی)۔ ٢ اکمال ص٨