Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003

اكستان

33 - 65
برخلاف وادی القری میں نشوونما پانے کی کسی کے پاس کوئی شہادت نہیں۔
	اس سلسلہ میں ابن اثیر اور خطیب تبریزی نے جو کچھ لکھا ہے وہ کا فی اہم ہے اور حسن کے نشوونما کے بارے میں جواختلاف ہے،بظاہر اس سے اس اختلاف کے رفع کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
	ابن ِاثیر جامع الاصول کے فن اسماء الرجال میںحسن کے ترجمہ میںلکھتے ہیں  :
 ''ولد مسنتین یقینا من خلافة عمر بن الخطاب بالمدینة وقدم البصرة بعد مقتل عثمان وقیل انہ لقی علیا بالمدینة واما بالبصرة فان رویتہ ایاء لم تصح لانہ کان فی وادی القری متوجھا نحو البصرة حین قدم علی بن ابی طالب البصرة''   ١  
	'' عمر بن خطاب کی خلافت کے دوسال باقی تھے کہ حسن مدینہ میں پیدا ہوئے اور شہادت عثمان کے بعد وہ بصرہ آگئے ۔کہا جاتاہے کہ مدینہ میں علی سے ان کا لقأ ہواہے لیکن اس میں کوئی صحت نہیں کہ بصرہ میں حسن نے علی کو دیکھا ہو کیونکہ علی جب بصرہ پہنچے تھے تو اس وقت حسن بصرہ جاتے ہوئے وادی القری میں تھے۔
 	بالکل یہی بات خطیب تبریزی نے لکھی ہے  :
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ،واللہ اعلم کہ شہادت عثمان کے بعد بصرہ جاتے ہوئے ،وادی القری میں حضرت حسن کا قیام اس مدت سے کچھ زیادہ رہا ہے جتنا عام طورپر مسافر راہ میں کسی جگہ قیام کیا کر تے ہیں اسی لیے ابن اثیر نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس وقت وادی القری سے گزر رہے تھے بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ اس وقت وادی القری میں تھے جس سے وادی القری میں ان کا قیام معلوم ہوتا ہے اور بظاہر یہی عارضی قیام ہے جس نے بعض حضرات سے یہ کہلوادیا کہ ان کا نشوونما وادی القری میں ہوا ۔ حضرت حسن جب مدینہ سے بصرہ کے لیے روانہ ہوئے ہیں اس وقت وہ عمر کے پندرھویں سال میں ہیں اور نابالغ ہیںاور یہ ان کے نشوونماہی کا زمانہ ہے۔ اس لیے اگر اس عدم بلوغ اور نشو ونما کے دو ر میں وادی القری کے عارضی مگر نسبتاً طویل قیام کو ''نشأ بوادی القری '' (وادی القری میں نشوونما پائی) سے تعبیر کردیا گیا تو ایسا ہونا بالکلیہ مستبعد نہیں۔  ٢
 	اور اگر یہ تاویل نہ کی جائے تو اس کی کوئی دلیل نہیں کہ انہوں نے وادی القری میں نشوونما پائی ۔اس کے برخلاف تمام تر دلائل ذہبی ،ابن اثیر اور خطیب تبریزی کے حق میں بھی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے وہیں نشو ونما پائی اور شہادت عثمان کے بعد مدینہ سے روانہ ہو کر وادی القری میں قیام کرتے ہوئے بصرہ پہنچے ۔
   ١  قرة ص٣٠١، فخرالحسن ص٥(جامع الاصول کا فن اسماء الرجال آخری جلد میں ہے جو طبع نہیں ہوئی)۔   ٢   اکمال ص٨


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
50 درس حدیث 6 1
51 فضیلت حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما 6 50
52 حضرت عائشہ کی غیرت : 6 50
53 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : 7 50
54 حضرت عائشہ کی باری، لوگوں کا رویہ ، اس کی وجہ : 7 50
55 ازواجِ مطہرات کی دو جماعتیں : 7 50
56 سوکن کی برداشت : 7 50
57 حضرت اُم ِ سلمہ کی گفتگو ،بعد ازاں تائب ہونا : 8 50
58 ایک اور کوشش اور بیٹی کی سعادت مندی : 8 50
59 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کامان : 9 50
60 حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمہ اللہ 10 1
61 جیل خانے یا عبادت گاہیں،ان حضرات کے مشاغل کی ایک جھلک : 10 60
62 جمعیة علماء ہند کی نظامت : 12 60
63 ١٩٤٧ء کے بعد حالات اور خدمات : 12 60
64 ٤٧ء کے بعد پیش آنے والے حالات کے ضمن میں : 14 60
65 جدید دفترجمعیة علماء ہند : 15 60
66 آخری دور کی تصانیف : 15 60
67 سلوک واحسان : 17 60
68 تعلیمی اشغال مدارس سے شغف : 18 60
69 عادات واخلاق : 20 60
70 عبادت وریاضت : 21 60
71 آخر وقت تک عزیمت پر عمل پیرا رہنے کی کوشش : 21 60
72 علالت : 22 60
73 وفات : 22 60
74 حُسنِ خاتمہ : 23 60
75 ایک اہم اعلان 25 1
76 قسط :١حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور حضرت علی کے ساتھ اُن کا اتصال 27 1
77 نشو ونما : 30 76
78 حسن بصری نے کن صحابہ سے روایت کی : 34 76
79 فہمِ حدیث 37 1
80 ٭قیامت اور آخرت کی تفصیلات 37 79
81 شفاعت : 37 79
82 شفاعت کون کون کرے گا : 42 79
83 جہنم میں داخلہ سے پہلے شفاعت : 42 79
84 اکمالِ دین 43 1
85 قرآن وحدیث میں تحریف : 43 84
86 (٢) اکمالِ دین ادلہ ٔ اربعہ کی صورت میں : 48 84
87 دعوت الی الحق : 50 84
88 آپ کے دینی مسائل 51 1
89 ٭( نماز پڑھنے کا طریقہ ) 51 88
90 نماز کی سنتیں : 51 88
91 حاصل مطالعہ 55 1
92 بے ادب بے نصیب : 55 91
93 قبلہ کی طرف تھوکنا بے ادبی ہے : 55 91
94 پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے : 57 91
95 ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ : 59 91
96 وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُ وًَّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ : 60 91
Flag Counter