ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
اگر ان کا نشوونما وادی القری میںہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن بچپن ہی میں کسی وقت مدینہ سے وادی القری گئے ۔چونکہ اس عمر میں نہ کوئی شخص خود کسی دُور دراز مقام پرجا سکتاہے اور نہ کسی اجنبی جگہ پہنچ کر مستقل اور خود کفیل زندگی بسر کرسکتا،اس لیے ضروری ہے کہ کوئی انہیں لے جانے والا ہواور وادی القری میں کوئی ٹھکانہ ہو جہاں وہ دوسرے کی زیرِ کفالت رہ سکیں لیکن کسی نے بھی معروف تذکرہ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کس کے ساتھ وادی القری گئے او ر وہاں کس کے پاس رہے۔ حضرت حسن کے والدین کو جن حضرات کا غلام کہا جاتا ہے کسی تذکرہ سے معلوم نہیں ہوتا کہ ان میںسے کوئی بھی وادی القری میں جاکر رہا ہو ۔اسی طرح حسن کے والدین یا اُن میں سے کسی ایک کا وادی القری جا کر رہے کا ذکر بھی کسی تذکرہ میں نہیں ملتا اور کسی تذکرہ سے یہ بھی معلو م نہیں ہوتا کہ حسن کا کوئی عزیز وادی القری میں ہو اور حسن کو کسی کے ہمراہ ان کے پاس بھیج دیا گیا ہو۔ ابن سعدجو حسن کے لیے قدیم ترین ماخذ میں سے ایک ہیں ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ حسن کی ولادت مدینہ میں اور نشو ونما وادی القری میں ہوا، دوسری جانب مختلف سندوں اور مختلف لوگوں کے حوالوں ںسے یہ بھی کہتے ہیںکہ : (الف) حسن کہتے ہیں کہ میں نے عثمان کو خطبہ دیتے سنا اور خطبہ کے دوران کھڑے اور بیٹھے دیکھا ، اس وقت میں پندرہ سال کا تھا۔ ١ (ب) ابو رجا نے جب حسن سے دریافت کیا کہ آپ مدینہ کب تک رہے تو انھوںنے جواب دیاکہ صفین کی جنگ تک۔ ٢ (ج) شہادت ِعثمان کے وقت حسن چودہ سال کے تھے اور انھوںنے عثمان کو دیکھا بھی ہے اور ان سے سنا بھی ہے۔ ٣ ١ طبقات ١٥٧٧ ٢ طبقات ١٥٧٧ ٣ طبقات ١٥٧٧ ، طبری لکھتے ہیں کہ ابو عمرو نے حسن سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے حضرت عثمان کو دیکھا تھا ،تو انہوں نے اس کے جواب میں پورا واقعہ بیان کیا کہ میں اس وقت سمجھدار تھا اور اپنے ہم عصروں کے ساتھ مسجد میں موجود تھا، جب شورزیادہ ہواتو میں بھی گھٹنوں کے بل اُٹھا یا کہا کہ کھڑا ہو گیا ،مسجد کے اطراف میں لوگ جمع تھے اور اہل مدینہ کو ڈرادھمکارہے تھے۔اس اثناء میں عثمان منبر پر چڑھے اور ان کی حالت ایسی تھی جیسے بجھی ہوئی آگ ،انہوں نے حمد وثنا بیان کی ،اسی دوران ایک شخص اُٹھا لیکن دوسرے نے اسے بٹھا دیا پھر ایک اور اٹھا اور دوسرے نے اسے بٹھا دیا پھر لوگ مزید بھڑک اُٹھے اور عثما ن کو کنکریاں مارنے لگے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور انہیں اٹھا کر اندر لے جایا گیا ۔ اس کے بعد بیس روز تک عثمان نے نماز پڑھائی پھر انہیں نماز پڑھانے سے بھی روک دیا گیا۔(تاریخ طبری ٤/٢٩٦٢)