ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
١٨٩١ ء میں آپ نے اپنی ایک وحی میں مسیح موعود ہونے دعوٰ ی کیا اور اپنی کتابوں ''فتح اسلام '' (حکومت پنجاب کارروائی محکمہ داخلہ ، مارچ ١٨٩٢ئ، انڈیا آفس لائبریری لندن کے مطابق ''فتح اسلام کے مصنف قادیان کے مرزا غلام احمد نے پوری دُنیا کو یہ بتایا کہ وہ انسانیت کے حالات کو سنوارنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور روحانی قوت ، اخلاقیات اور فطرت میں وہ یسوع مسیح کی طرح ہے اور عوا م کو دعوت دی کہ اس کی پیروی کریں ۔'')تو ضیح مرام اور ازالہ ء اوہام میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طبعی وفات کا اعلان کیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں اس نے یہ دلیل دی کہ یہ دراصل ایک ایسے شخص کی آمد ہوگی ، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام والی روحانی خصوصیات پائی جاتی ہوں گی ۔ اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے ، بلکہ بچ گئے اور افغانستان اور کشمیر میں ''دس گمشدہ قبائل کی نسلوں کو تبلیغ کرنے کے لیے ہندوستان آگئے تھے ۔ آپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ کا مقبرہ بھی سرینگر کشمیر میں دریافت ہو چکا ہے۔ ١ یہ ضروری ہوگاکہ اس جگہ ابن مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا تقابل یہودیت میں طویل اور خصوصی اہمیت کا حامل مسیح موعود کے نظریہ سے کیا جائے ۔لفظ مسیح کی ابتداء عبرانی زبان سے ہوئی جس کا معنی ہے(Anointed one) یعنی مسح شدہ جس کے سرپر تیل ڈالاگیا ہو ۔بادشاہوں اور یہود کے سربراہان کو اقتدار سونپتے وقت ان کے سروں پر تیل ڈال کر مقدس کیا جاتا تھا ۔جب یہودی ایرانیوں کے زیر تسلط تھے تو انہوں نے یہ خواب دیکھنے شروع کر دئیے کہ وہ دن آئیگا کہ جب دا ودعلیہ السلام کی اولاد دوبارہ ظاہر ہو گی اور ایک مقدس بادشاہ اسرائیل کے تخت پر ایک بار پھر براجمان ہوگا۔ چنانچہ جب یہو دی رومیوں کے زیر تسلط تھے تو انہوںنے دومختلف ادوار پر مسیح کے بارے میں اپنے نظرئے کو تبدیل کر لیا۔یہودیوں کی ایک غالب اکثریت ایک طاقتور جنگجو کے ظاہر ہونے کی توقع کرنے لگی جو دائودی خاندان سے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی قیادت کرے گا۔رُوم کو تباہ کرے گا ۔یہودیوںکو آزادی دلائے گا۔اورانصاف ،خوشحالی اور امن کی سلطنت قائم کرے گا ۔مگر ایک چھوٹا سا گروہ اور بھی تھا جو مسیح کو ایک عام انسان سے زیادہ طاقت ور سمجھتا تھا جو عام ہتھیاروں کی مدد سے کافروں کو قتل کرے گا اور یہود یت کو کامیابی دلائے گا ۔کتاب اینوخ جو پہلی صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی اس کے مصنف نے ایک ایسے فوق الفطرت شخص کے بارے میں کہا ہے جوزمین کی طرف جانے کے لیے خدا کے اشارے کا منتظر ہے اور انسانیت کو گناہ ،ناانصافی اور ظلم سے نجات دلائیگا ۔خدا نے عیسیٰ بن مریم کو صفحہ نمبر 62 کی عبارت یہودیوں کو تکلیف دہ صورتحال سے نجات کے لیے بھیجا ،مگر انہوں نے یہودا کے رومی گورنر پو نطس پلا طیئس کے ساتھ مل کر ان کو اپنے خیال میں مصلوب کر دیا اور انہیں ایک جھوٹا مسیح قرار دیا جو لعنتی موت مرا۔ اسلام کی آمد کے بعد تک یہودی مسیح موعود کا اس اُمّید پر انتظار کرتے رہے کہ وہ دنیائے اسرائیل پر حکمرانی کرے گا ۔قرآن اور احادیث میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ١ ''مسیح ہندوستان میں ''۔قادیان ۔ ١٨٩٩ء ۔صفحہ ٣