ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
تو یو پی کے مسلمانو ں کے قدم لغزش میں آجاتے ۔سہارنپور کے مسلمانوںکا انحصار سارا کا سارادو ہستیوںحضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری اور حضر ت مولانا مدنی پر تھا ۔اس وقت مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ جمنا کے کنارے ہونا تھا لیکن یہ دوصاحب عزم ِ مجاہد بندے وہاں جمع رہے ۔ایک رائے پور کی نہر کے کنارے بیٹھ گیا اور ایک دیوبند میں ۔ آپ کو معلوم ہو گا یہ رائے پور او ر دیوبند مشرقی پنجاب کے ان اضلاع سے متصل ہیں جہاں کشت وخون کا ہنگامہ گرم تھا لیکن یہ اللہ کے بندے پورے عزم و استقلال کے ساتھ جمے رہے اور انہوں نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اسلام کو یہاں رہنا ہے اور رہے گاانہوںنے کہا کہ مسلمانوں کا یہاں سے نکلنا صحیح نہیں اگر تم مشورہ چاہتے ہو تو ہم مشورہ دیتے ہیں اگرفتوے کی ضرورت ہو تو ہم فتوٰی دینے کو تیارہیں ۔اس وقت ہندوستان میں جو مسجد یں قائم ہیں او ر ان میں جو نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور پڑھی جاتی رہیں گی یہ ان کا طفیل ہے ۔ہندوستان میں جتنے مدرسے اور خانقاہیں قائم ہیں اور جو فیوض و برکات ان سے صادر ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔انہی کے مرحونِ منت ہوں گے اوران سب کا ثواب ان کے اعمال نامے میں لکھا جاتا رہے گا ۔اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی نے سارے ملک کا دورہ بھی کیا، ایمان آفریں او ر ولولہ انگیز تقریریںبھی کیں اوراپنے ذاتی اثرورسوخ اپنی تقریروں اور خود اپنے طرزِ عمل سے مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے اور اپنے ملک کو اپنا سمجھنے اور حالات کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا ۔ (ماخوذ از واقعات صفحہ ٢١٩) اس تمہید کا مقصد ایک اہم او ر ناخوشگوار واقعہ کی طرف توجہ دلانا ہے جو١٠ دسمبر ٢٠٠٢ء کے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔ملاحظہ فرمائیں : ادارہ'' ہم سخن ساتھی'' کی جانب سے معروف سرجن ڈاکٹر عامر عزیز کے اعزاز میں منعقدہ عشائیہ صفحہ نمبر 5 کی عبارت کے اختتام پر چیف ایڈیٹر نوائے وقت جب تقریر ختم کرکے واپس اپنی نشست کی طرف آ ئے تو تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد نے ان سے مخاطب ہو کر کہا نظامی صاحب میں مولانا حسین احمد مدنی کا پیرو کار نہیں ہوں۔ اس پر جناب مجید نظامی نے کہا کہ آپ منبر رسول پر کھڑے ہو کر مولانامدنی کی تعریف کیا کرتے تھے صرف اس وجہ سے میںنے آپ کی جامع مسجد میں نما ز پڑھنی چھوڑ دی ۔مجید نظامی کے ان کلمات پر ڈاکٹر اسرار احمد دم بخود رہ گئے اور خالی خالی نظروں