ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
رحمہما اللہ کے ان کلمات سے ہوتا ہے جو انہوں نے ١٩٦٤ء میں حج کے موقع پر مدرسہ صولتیہ میں علماء کے خصوصی اجتماع سے خطاب کرتے وقت تمہیداً فرمائے تھے کہ ''مسلمانوں کا آپس میں اتنا متحد ہو جانا کہ جتنے حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں ہو گئے تھے یہ تو بہت محال ہے البتہ ہم اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔''اس کے بعد انہوں نے ظہر کے قریب تک اپنا خطاب بیٹھے بیٹھے جاری رکھا اس خطاب میں میں بھی حاضر تھا اور تقریبًا بیس یا اکیس مختلف اطراف واکناف کے علماء بھی اور مولانا کے برابر فرانس کے مبلغ بیٹھے ہوئے تھے جنہوںنے وہاں اسلام کی دعوت و اشاعت کا حال سنایا ۔ حضرت مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ کا یہ آخری دور تھا (مارچ ٦٥ ١٩ء میں آپ کی وفات ہو ئی ) اور جماعت تبلیغ ساری دنیا میں کام کر رہی تھی ۔پھر ان کا اپنے تمہید ی خطاب میں یہ فرمانا حضر ت شیخ الہند رحمہ اللہ کی اجمالاً کسی قدر عظمت ظاہر کرتا ہے۔ اسیرانِ مالٹا میں تحریر فرماتے ہیں : خلافت کمیٹی کے زعماء نے آپ کو'' شیخ الہند'' کا خطاب دیا تھا جو اسم گرامی کا مقبول اور مشہور جز بن گیا آپ وعظ و تقریر کے عادی نہ تھے لیکن انفاس قدسیہ اور خلوص نیت کی برکت تھی کہ آپ کی مالٹا سے واپسی پر قومِ مسلم کا یہ حال ہوا کہ اس کا قدم سب سے تیز تھا ہر ایک شخص تحریک کا متوالا جان اور مال کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ۔ایک تھوڑی تعداد جو مخالف تھی اس کی حالت یہ تھی کہ جب دہلی میں اس گروہ کے بہت بڑے شخص کا انتقال ہوا تو باوجودیکہ وہ پہلے علماء نیز عام مسلمانوںمیں بہت زیادہ رسوخ اور مقبولیت رکھتا تھا لیکن اس وقت حالت یہ تھی کہ تجہیز و تکفین کے لیے مسلمان تیار نہ تھے گھر کے مخصوص آدمیوں کے سوا کوئی شخص شریک جنازہ نہیں ہوا مجبوراً جنازہ کو موٹرمیں قبرستان پہنچایا گیا ۔( معاذاللہ) شیخ الہند درحقیقت اس وقت شیخ الہند تھے ۔پورے ہندوستان کے مسلمہ قائد آپ ہی تھے حضرت شیخ الہند ہی کی پارٹی کے افراد ہندوستان کے مسلمہ لیڈر تسلیم کیے گئے اور اسی کا اثرتھاکہ گاندھی بھی اعتراف کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ''میں مولانا محمد علی کی جھولی کا ایک مہرہ ہوں''۔ ایک خاص برکت جس کے دوبارہ مشاہدہ کے لیے آنکھیں ترستی ہیں اور بظاہر ترستی رہیں گی یہ تھی کہ شہر اور صفحہ نمبر 43 کی عبارت دیہات کے تقریبًا تمام ہی مسلمان نمازی بن گئے ،ضلع سہارنپور کے دیہات کی یہ حالت تھی کہ پنج وقتہ نمازیوں کی کثرت سے مسجدوں میں جگہ ملنی مشکل ہوتی تھی ۔(اسیرانِ مالٹا ص٥٥ وص٥٦ ملخصاً) میرا مقصد اس مضمون میں صرف علمی کمالات کا تذکرہ تھا مجاہدانہ کارنامے اور سیاسی حالات و نظریات بیان کرنا نہیں ان کے لیے نقش حیات ، علماء حق ،اسیرانِ مالٹاوغیرہ تصانیف موجود ہیں ۔خداوند کریم ہمیں استقامت بر شریعت اتباع سنت اور ان اکابر کی پیروی نصیب فرما ئے۔اللّٰھم ارفع درجاتھم جمیعا فی اعلی علیین ۔ آمین۔