ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
ڈاکٹر صاحب پر اسی وقت بھری مجلس ہی میں نازل ہو گیا کہ نظامی صاحب نے ان کی برأت کو اسی وقت پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اورصحافت کی زردی ڈاکٹر صاحب کونیلا پیلا کر گئی ۔اخبار لکھتا ہے مجید نظامی صاحب کے ان کلمات پر ڈاکٹر اسراراحمد دم بخود رہ گئے اور خالی خالی نظروں سے مجید نظامی کی طرف دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر حاحب کی بے موقع بات کے جواب میںنظامی صاحب کی اس نامعقول او ر غیر سنجیدہ گفتگو کے دسیوں معقول جواب اسی وقت دئیے جا سکتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب سے ایک زیرک انسان ہونے کے باوجودکوئی جواب نہ بن پڑا او روہ مبہوت ہوکر رہ گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔جب انسان اللہ کو چھوڑ کر مخلوق کی خوشنودی میں لگ جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مخلوق ہی کے ہاتھوں خجالت سے دوچار کرا دیتا ہے۔ حضرت شیخ الہند کے مسلّم جانشین ان کی روایات کے امین حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی سے بیزار ہو کر ڈاکٹرصاحب اپنے کو حضرت شیخ الہند کی تحریک سے کیسے وابستہ کر سکتے ہیں اس سلسلہ کی تمام محنت جو ڈاکٹر صاحب بڑی گرم جوشی سے کرتے رہے ہیں او ر اس بارے جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔٩ دسمبر کے اس مکالمہ کے بعد ڈھیر ہو چکی ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ٢٢ پر مودودی صاحب کے حالات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں : ''........لیکن جمعیة علماء ہند سے وابستہ علماء کرام اور خاص طور پر مولانا حسین احمد مدنی کے عقیدت مندوں کا اکثر وبیشتر حلقہ ان سے (مودودی صاحب سے ) شدید بیزارہو گیا اور دور رس نتائج اور دیر پا عواقب کے اعتبار سے یہی چیز ان کے قدموں کی زنجیر او ر ان کی ناکامی کا بڑا سبب بن گئی ! عجیب بات ہے اپنی ہی رائے سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ڈاکٹر صاحب موصوف نے خود اپنے قدموں کی زنجیر یں تیار کرنا شروع کردیں !'' جب میرا بچپن تھا اس وقت سے ڈاکٹر صاحب موصوف کی والد گرامی حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاںصاحب نوراللہ مرقدہ کی خدمت میںنیاز مندانہ آمدورفت تھی، اسی تعلق اورعمر کی بڑائی کا تقا ضا تھا کہ ادب و مروت کی حدووکا خیال رکھا جائے مگر افسوس کہ ٩ دسمبر کے ناخوشگوار واقعہ میں خود ڈاکٹر صاحب نے اس خوشنما عمارت کوزمین بوس کر کے ہمارے لیے وہ صفحہ نمبر 10 کی عبارت خاردار راہیں ہموار کردیںجن کوخواہی نہ خواہی ہم کو عبو ر کرنا ہی پڑگیا۔ فحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل۔