ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
الرقاب والغارمین وفی سبیل اللّٰہ وابن السبیل فریضة من اللّٰہ (التوبہ) زکٰوة جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اورزکٰوة کے کام پرجانے والوں کا اور جن کا دل پر جانامنظور ہے اور گردنیں چھڑانیں میں اور جو تاوان بھریں اور اللہ کے راستہ میں اور راہ کے مسافر کو ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا۔ آیت کریمہ کی تفسیر کا پس منظربیان فرماتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں : چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیاگیا تھا اس لیے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقر ر کیا ہوا ہے۔ اس نے صدقات وغیر ہ کے مصارف متعین فرماکر فہرست بنی اکرم ۖ کے ہاتھ میں دیدی ہے آپ اسی کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔کسی کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتے۔ حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ صدقات کی تقسیم اللہ نے نبی یا غیر نبی کی مرضی پر نہیں چھوڑ ا ہے بلکہ اس کے مصارف بذات خود متعین کیے ہیں جو آٹھ ہیں : (١) فقراء : (جن کے پاس کچھ نہ ہو ) (٢) مساکین : ( جن کوبقدر حاجت میسر نہ ہو) (٣) عاملین : جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات کے کاموں پر مامور ہوں ۔ (٤) مؤ لفة القلوب : (جن کے اسلام لانے کی اُمید ہویا اسلام میں کمزور ہوں وغیرہ ذالک ۔اکثر علما ء کے نزدیک حضور ۖ کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی۔ (٥) رقاب : یعنی غلاموں کو بدل کتابت ادا کرکے آزاد ی دلائی جائے یا خریدکر آزادکیے جائیں یا اسیروںکا فدیہ اداکرکے رہاکیے جائیں ۔ (٦) غار مین : جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہوگئے یا کسی ضمانت وغیرہ میں دب گئے ۔ (٧) سبیل اللہ : جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے ۔ (٨) ابن السبیل : مسافر جوحالت سفر میں صاحب نصاب نہ ہوں مکان پردولت رکھتا ہو۔حنفیہ کے نزدیک یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے ۔ علاوہ برآں از روئے مضمون آیت کریمہ میں سماج کے غریب ترین اور نہایت ہی پست زندگی گزارنے والے افراد کا ذکر کیاگیا ہے۔ اور ان افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بیا ن کیے گئے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی