دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
پذیر چیز حادث ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا: عالَم حادث ہے)۔ النِّزَاعُ اللَّفْظِيُّ: ہو المُخَاصَمَۃُ فيْ إطْلاقِ اللَّفْظِ والاصْطِلاحِ، لافيْ المَعنیٰ۔ النِّزاعُ المَعنَوِيُّ: ھوَ مَاکانَ فيْ مَعنَاہُ۔ (التعریفات الفقھیۃ: ۲۲۷) نزاعِ لفظی: وہ اختلاف اور جھگڑا جو عرف ولغت اور اصطلاح سے متعلِّق ہو، معنیٰ سے متعلق نہ ہو،(جیسے: مبتدا اور خبر کے درمیان -جب کہ دونوں معرفہ ہوں - ایک ضمیر لاتے ہیں ، جیسے زید ہو القائم، اِس ضمیر کو بصریین ’’ضمیر فصل‘‘ کہتے ہیں ، اور کوفیین ’’عماد‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، یہ نزاع ’’نزاعِ لفظی‘‘ کے قبیل سے ہے)۔ نزاعِ معنوی: وہ اختلاف ہے جو لفظ کے معنیٰ ومطلب سے متعلق ہو۔ (الحاصل نزاعِ معنوی پر کوئی ثمرہ مرتب ہوتا ہے جب کہ نزاعِ لفظی پر کوئی ثمرہ مرتب نہ ہوگا) النِّسبَۃُ: تُطلَقُ عَلیٰ مَعانٍ: مِنْھَا: النسْبۃُ: قِیَاسُ شَيئٍ إلیٰ شَيْئٍ؛ وبِھٰذا المَعنَی یُقالُ:کلُّ مَفْھوْمٍ إذَا نُسِبَ إلیٰ مَفھُوْمٍ آخَرَ، سَوائٌ کانَا کُلِّیَّیْنِ أوْ جُزْئیَّینِ؛ أوْ أحُدھُمَا کلِّیاً والآخَرُ جُزْئِیًّا، فالنِّسبَۃُ بینَھمَا مُنحصِرَۃٌ فيْ أربَعٍ: المُسَاواۃُِ، والعُموْمُ مُطلَقاً، ومِنْ وَجہٍ، والمُبَایَنَۃُ الکلیَّۃُ؛ وذانکَ لأنھُمَا إنْ لمْ یَتصَادَقَا عَلیٰ شَيئٍ أصْلاً فھُمَا ’’مُتبَایِنانِ‘‘ تَبایُناً کلیًّا؛ وإنْ تَصادَقَا، فإنْ تَلازَمَا فيْ الصِّدْقِ فھُمَا ’’مُتسَاوِیانِ‘‘؛ وإلاَّفإنِ اسْتلزَمَ صِدقُ