اسی لئے اس حدیث کے آخرمیں فرمایا:
فَطِیْبُوْابِہَا نَفْساً……پس اے اللہ کے بندو!دل کی پوری خوشی سے قربانی کیا کرو۔
قرون اولی میں قربانی کا اہتمام
اسی لئے قرون اولیٰ میں قربانی کے لئے بڑا اہتمام ہوتاتھا، کیونکہ یہ کوئی رسم یا عید کی تفریح کی حیثیت سے نہیں بلکہ مستقل شعاراسلام ہے
صحابہ فرماتے ہیں:کُنَّا نُسَمِّنُ الْاُضْحِیَّۃَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ یُسَمِّنُوْنَ(بخاری)
ہم مدینہ منورہ میں قربانی کو خوب موٹا تازہ کرتے تھے،اورعام مسلمانوں کا بھی یہی معمول تھا،تاکہ موٹا فربہ جانوراللہ کے حضورپیش کریں۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی ہدایت تھی کہ اچھے جانورخریدے جائیں،عیب دارنہ ہوں،قرون اولی میں آج کی طرح نہیں تھا بلکہ ہرایک مین دینی جذبات اپنے عروج پر تھے،اس دورکا یہ حال تھا کہ ایک ایک آدمی سوسواونٹوں کی قربانی کرتا تھا۔
خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفرحج میں سواونٹوں کی قربانی کی ،تریسٹھ اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھوں سے کی اور باقی کی حضرت علی نے قربانی کی۔
قربانی کے جانور کے بارے میں حضورؐ کی ہدایات
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مستقل ہدایات تھیں کہ اللہ کے حضوراپنی استطاعت کے مطابق اچھاجانورپیش کیا جائے،لنگڑا،لولا،یاعیب دارجانورکی قربانی کرکے رسم پوری نہ کیجائے۔
حضرت براء بن عازبہؓ کہتے ہیں،اللہ کے نبیؐ سے پوچھا گیا: