اللہ تعالیٰ یہ اندر کا جذبہ اورکیفیت دیکھنا چاہتا ہے…………اس کو تمہارے جانورکی ضروت نہیں،جانور کے اجزاء کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی لئے فرمایا:
لَنْ یَنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَدِمَائُ ہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْوٰی مِنْکُمْ
اللہ تعالی کے پاس نہ ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اورنہ ان کا خون،بلکہ اس کے پاس توتمہارا تقوی پہنچتا ہے۔
جب تم نے اللہ کا نام لیکر جانورکے حلق پرچھری پھیردی ،تو اندرکے ذوق وجذبہ اور تقوی کا امتحان ہوگیا۔اللہ تعالیٰ کو گوشت پوست،کھال اور خون کی ضرورت نہیں ہے۔
امت محمدیہ کا اکرام
پچھلے زمانے میں بادشاہوں کے دربارمیں لوگ ہدیہ اورتحفہ بھیجا کرتے تھے،اس زمانے میں دربار کا قانون یہ تھا کہ ان ہدایا پربادشاہ ہاتھ رکھ دیتا تھا ،جس کے ہدیہ پربادشاہ نے ہاتھ رکھا وہ قبول ہوگیا………پھروہ ہدیہ اسی دینے والے کو لوٹا دیا جاتا تھا کہ تم واپس لے جائو۔تم بادشاہ سے اسکے زیادہ محتاج ہو۔
مولانا روم علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی گویا قربانی پرہاتھ رکھ دیتے ہیں اس طرح کہ بندوں سے چھری پھرواتے ہیں ……کہ چھری پھیرکر اپنے اندر کا ذوق ،جذبہ اورتقوی تبادو بس ہم نے قبول کرلیا……اب اس پورے جانور کو تم استعمال کرو۔
اس کا گوشت تمہارا………اس کی کھال تمہاری
اس کی ہرچیز تمہاری………ہمیں اس میں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
اسی لئے اگر کوئی آدمی قربانی کاپورا گوشت خود کھالے تو جائز ہے،حرام نہیں،ہاں بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرکے،ایک حصہ خود لے…ایک حصہ اعزہ اقارب دوست