آسانی سے وہ حلق پرچل جائے اور مجھے زیادہ تکلیف نہ ہو،اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو انہیں میرا سلام کہہ دینا……
یہ جانگداز الفاظ بوڑھا پے میں اکلوتے بیٹے کی زبان سے سنکر ایک باپ کے دل پرکیا گذرسکتی ہے؟
لیکن حضرت ابراہیمؑ استقامت کا پہاڑ بن کرجواب دیتے ہیں کہ……
بیٹے!تم اللہ کا حکم پوراکرنے میں میرے کتنے اچھے مددگارہو……یہ کہہ کر اپنے معصوم بیٹے کا بوسہ لیا،پُرنم آنکھوں سے بیٹے کو باندھ دیا(تفسیرمظہری)
امتحان میں کامیابی پردارتحسین
باندھ کرزمین پرلٹادیا اورگلے پرچھری چلانا شروع کردیا…آسمان ششدر وحیران ہے زمین نے اس جیسا منظرکبھی نہیں دیکھا…لیکن …لیکن…چھری اٹک رہی ہے ،چل نہیں رہی ہے …وہ بھی تو کسی کے حکم کی محتاج ہے۔
پھرکیا ہوا؟…تفسیری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک پیتل کا ٹکڑا اللہ نے بیچ میں حائل کردیا،ابراہیمؑ کے اس والہانہ عمل کو دیکھ کر آسمانی نداآئی۔
وَنَادَیْنَاہٗ اَنْ یَّااِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا
ہم نے آواز دی کہ ابراہیم !تمہاراامتحان ہوگیا،جوچیز ہم تم سے دیکھنا چاہتے تھے وہ دیکھ لی،تم نے خواب سچ کردکھایا۔
قَدْصَدَّقْتَ الرُّؤیَا………………تم نے خواب سچ کردکھایا
تم نے اپنی طرف سے کوئی کمی اورکسرباقی نہیں رکھی۔
اب انہیں چھوڑدو…………ہم انہیں ذبح کروانا نہیں چاہتے تھے،ہم تو