۹؍ذی الحجہ کی فجرسے ۱۳؍ذی الحجہ کی عصرتک۔
قربانی امت کو کیا پیغام دیتی ہے
سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا یہ پورا واقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے۔روز اول سے امت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں یہ احساس ،یہ علم،یہ معرفت اوریہ فکر پیداہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہرچیز پرمقدم ہے۔تمہاری تمام ترکامیابی کے راز اسی میں پنہا ہیں کہ تم اللہ کے حکم کوبے چوں وچراکرگذروچاہے وہ حکم تمہاری عقل میں نہ آرہا ہو…تمہارے سماج کے خلاف معلوم ہورہا ہو…تمہاری طبیعت اس کو پوراکرنے میں بوجھ محسوس کررہی ہو۔
اس پورے واقعہ میں غورکروسیدنا ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی اطاعت شعاری دیکھو کسی طرح کی کوئی چیز امرالٰہی کوپورا کرنے میں مانع نہیں بنی۔
دین سراسراتباع کانام ہے
قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے،اس لئے کہ قربانی کے معنی ہے’’اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی چیز‘‘یہ لفظ ’’قربانی‘‘قربان سے نکلا ہے اورلفظ قربان قرب سے بناہے، تو قر با نی کے معنی یہ ہے کہ وہ چیز جس سے اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے ۔
قربانی کے اس سارے عمل میں امت کو یہی سکھلایا گیا ہے کہ ہمارے حکم کی اتباع کانام ہی دین ہے۔
جب ہمارا حکم آجائے تو اس کے بعد عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع ہے،نہ اس میں حکمتیں اورمصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہتا ہے،نہ اس میں چوں وچرا کا موقع رہتا ہے۔