مگراسلام نے اپنے پیرئوں کو پابندکیا کہ وہ قربانی سوائے اللہ کے اورکسی کے نام پر نہ کریں۔
فرمایا……فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ کوثر)
آپ کی نماز صرف آپ کے رب کے لئے ہو،آپ کی قربانی صرف آپ کے رب کے لئے ہو آپکا ہرعمل سوائے اللہ کے اورکسی کے لئے نہ ہو اور کسی جذبہ سے نہ ہو،ہرعمل میں اپنا پورارخ صرف اللہ کی طرف ہو۔
آپ جب قربانی کررہے ہوں یا اور کوئی عمل کررہے ہوں تو آپ کا دل پکارکریہ کہہ رہا ہو،اندرکی کیفیت یہ بن رہی ہو۔
قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
کہ میری نماز ،میری قربانی،میرا مرنا اور میراجینا صرف اللہ کے لئے ہے جو جہانوں کا پالنہار ہے۔
قربانی کی عظیم الشان تاریخ
الغرض قربانی ہرامت میں ہوتی چلی آرہی ہے……لیکن کسی کی قربانی کو وہ عظمت واہمیت ……وہ وسعت وہمہ گیری حاصل نہیں ہوئی…… جو سیدنا ابراہیمؑ کی عظیم الشان قربانی کو حاصل ہوئی۔
سیدنا ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے کئی امتحانات سے گذارا، کئی کٹھن اورمشکل گھاٹیوں سے پارہونا پڑا……کیونکہ’’ وہ جن کے رتبے ہیں سواان کی مشکل ہے سوا‘‘۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اَشَدَّ الْبَلاَئِ اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ
اوریہ حضرت ابراہیمؑ ہی کی شان تھی…کہ ہرامتحان میں پورے اترے،ہرآز ما ئش وابتلاء میں کامیاب ہوئے۔