ایک مومن کا کام یہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے حکم آجائے تو اپنا سرجھکا دے اور اس حکم کی اتباع کرلے۔
مومن کی مثال ایسی ہے ’’کالمیت فی یدالغسال‘‘جیسے مردہ نہلانے والے کے ہاتھ میں کہ اس کا اپنا کوئی ارادہ …اس کی اپنی کوئی منشاء…بلکہ اس کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی،مکمل اپنے آپ کو حوالہ کئے ہوئے ہوتا ہے۔
معاشرے میں پھیلی گمراہی
آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کا مزاج یہ بن رہا ہے کہ ہرحکم شرعی میں حکمت ومصلحت تلاش کررہے ہیں۔
کہ صاحب!یہ حکم تو ہے سرآنکھوں پر…لیکن اس کی حکمت کیا ہے؟
مصلحت کیا ہے؟ ………………اسکا عقلی فائدہ کیا ہے؟
یہ بات کچھ عقل میں نہیں اتررہی ہے…یہ بات بہت زیادہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
ہرحکم کو عقل کے معیارپر پرکھنے کی کوشش کی جارہی ہے…اوریہ ذہن بن رہا ہے گویا کہ …اگرعقلی فائدہ نظرآئے گا تو کریں گے…اوراگرفائدہ نظرنہیں آئے گا تو نہیں کریں گے۔
میرے دوستو!یہ جہالت ہے ،گمراہی ہے،ضلالت ہے،اس کا نام دین نہیں ہے اس کا نام اتباع نہیں ہے………بلکہ یہ نفس پرستی اورخواہش پرستی ہے۔
حدیث میں ہے………لاَیُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبْعًالِمَا جِئْتُ بِہِ
تم میں سے کوئی اس وقت تک سچا پکا مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے دین کے تابع نہ کردے۔