ابا جان !اس امرالٰہی کوکرگذرئے اورجہاں تک میرا تعلق ہے ،آپ فکر نہ کریں… سَتَجِدُنِیْ اِنْشَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ۔
آب مجھے انشا ء اللہ صبروضبط کرنے والا پائیں گے۔گلہ وشکوہ کرنے والا اوراعراض کرنے والا نہیں پائیں گے۔
کیا عجیب جواب ہے بیٹے کا بیٹے نے بھی کسی تاویل کا سہارا نہیں لیا،نہ اس حکم کو عقل کے معیارپرپرکھنے کی کوشش کی نہ باپ سے اس حکم کی حکمت ومصلحت پوچھی۔
بلکہ مکمل جاں سپاری اوراطاعت شعاری کا ثبوت دیا۔
فیضان نظریا مکتب کی کرامت
اللہ اکبر !بیٹے کی سلیقہ مندی ،اس کی اطاعت شعاری۔
شاعرسوالیہ اندازمیں پوچھتا ہے ؎
یہ فیضان نظرتھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
شاعرکوپتہ نہیں،یہاں دونوں چیزیں تھی،اسماعیل کو آداب فرزندی جس نے سکھایا تھا اس میں فیضان نظربھی تھا،سیدنا ابراہیمؑ کی نظراورتوجہ کا اثربھی تھا،جس نے اسماعیلؑ کی کایا پلٹ دی،اوراس عمرمیں وہ سلیقہ مندی عقل وخرداوربصیرت عطاکردی ۔
اوراسی کے ساتھ مکتب کی کرامت بھی تھی ۔
جس ماں کی گودمیں ان کی تربیت ہوئی تھی…جس ماں کے ہاتھوں یہ پروان چڑ ھے تھے۔
جس ماں کی آغوش میں ان کا بچپن گذراتھا…جس ماں کے سایہ تلے یہ پلے پڑھے تھے۔
وہ ماں نبوت کی حرم محترم تھیں … …وہ گود ان کا پہلا مکتب تھا ۔
انکے پروان چڑھنے میں…اوران کے اس بلنددرجہ پرفائز ہونے میں… اس