اسی لئے باوجودوسعت کے ،باوجود استطاعت کے اگرکوئی قربانی نہیں کرتا،تو آپؐ نے اس پرسخت ناراضگی کا اظہارفرمایا۔
حدیث میں ہے:
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَیَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا(ابن ماجہ ص ۳۳۶)
جس شخص کے پاس وسعت وطاقت ہو اورپھرقربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
اسے کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری عید گاہ میں آئے،بتلائو !کتنی سخت ناراضگی کے الفاظ ہیں،اس سے زیادہ اورناراضگی کیا ہوسکتی ہے۔
قربانی میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
اسی لئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام کے ساتھ ہر سال قربانی فرمایا کرتے تھے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:
اَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّی
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میںدس سال قیام فرمایا اور ہرسال قربانی کرتے رہے ۔عام معمول آپ کا دومینڈھوں کی قربانی کا تھا(ترمذی)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:
ضَحّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَبَشَیْنِ اَمْلَحَیْنِ اَقْرَنَیْنِ ذَبَحَہُمَا بِیَدِہِ وَسَمّٰی وَکَبَّرَ(بخاری ومسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہی سفیدی مائل رنگ کے سینگوں والے دومینڈھوں کی قربانی کی،اوردونوں کو بسم اللہ واللہ اکبر کہکر اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔