ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
، لأن ما عدا الصیغۃ لیس جزئً ا من حقیقۃ البیع ، وإن کان یتوقف علیہ وجودہ ، واستحسن بعض الفقہاء المعاصرین تسمیۃ مجموع الصیغۃ والعاقدین والمحل (مقوّمات العقد) للاتفاق علی عدم قیام العقد بدونہا ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۱۰) جب بیع ان ارکان اور ان کی شروطِ لازمہ (جو کتبِ فقہ میں موجود ہیں) کے ساتھ متحقق ہوجائے، تو پھر اس پر یہ احکام مرتب ہوتے ہیں: ۱- انتقالِ ملک : مشتری مبیع (Sold)کا ، اور بائع ثمن (Price/ Value) کا مالک ہوجاتا ہے، محض عقدِ بیعِ صحیح سے مبیع پر مشتری کی ملک ثابت ہوجاتی ہے،اور ملک تقابض(عاقدین کا بدلین پر قبضہ) پر موقوف نہیں ہوتی، گرچہ ضمان اور رسک میں تقابض کا اثر ہوتا ہے، یعنی جب تک عاقدین بدلین پر قبضہ نہیں کرتے بدلین ان کے ضمان اور رسک میں داخل نہیں ہوتے،یہ حکم اس وقت ہے جب بیع منقول کی ہو، ورنہ غیر منقول قبضہ سے پہلے ضمان میں داخل ہونے اور نہ ہونے میں شیخین اور امام محمد رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔(کما سیأتي) ’’ الآثار المترتبۃ علی البیع : أولا ؛ انتقال الملک ؛ یملک المشتري المبیع، ویملک البائع الثمن ، ویکون ملک المشتري للمبیع بمجرد عقد البیع الصحیح ، ولا یتوقف علی التقابض ، وإن کان للتقابض أثرہ في الضمان‘‘۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۳۶) بدلین میں ’’ انتقالِ ملک ‘‘ ہوجانے پر یہ احکام مرتب ہوتے ہیں: الف:- مبیع میں جو بھی ظاہری ومعنوی اضافہ ہوگا ، وہ مشتری کی ملک ہوگا، گرچہ اس نے مبیع پر قبضہ نہ کیا ہو، اور ثمن کا مؤجل (ادھار) ہونا مبیع کے مشتری کی ملک میں داخل ہونے کو مانع نہیں ہوگا۔