ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفیق : حامدا ًومصلیاً ومسلماً ! بیعانہ کی دو شکل ہوتی ہے ، ایک تو وعدۂ بیع اور بیع کے وثوق کے طور پر کچھ رقم بطور بیعانہ دیتے ہیں، ایسی صورت میں بیع تام نہیں ہوتی ، نہ ہی وہ زمین بائع کی ملکیت سے نکلتی ہے اور نہ مشتری کی ملک میں داخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مشتری کو آگے فروخت کرنا درست نہیں ہوتا، البتہ اگر بائع ومشتری زمین کی خرید وفروخت پر راضی ہوجائیں اور زمین کی تعیین بھی ہوجائے، اس کے بعد مشتری ثمن کا کچھ حصہ بائع کے حوالہ کردے اور کچھ ادھار کردے تو ایسی صورت میں بیع تام ہوجاتی ہے، اور بیع کے احکام نافذ ہوجاتے ہیں ، یعنی مبیع بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں چلی جاتی ہے، اور ثمن کا بائع مالک ہوجاتا ہے، وأما رکنہ فنوعان : أحدہما الإیجاب والقبول والثانی التعاطی (عالمگیری:۳/۲) وفی الشامی : وحکمہ ثبوت الملک أی فی البدلین لکل منہما فی بدل (شامی:۳/۱۶) اور غیر منقول چیزیں بیع قبل القبض درست ہے، اس لیے اگر اس کے بعد مشتری اس زمین کو آگے فروخت کرتا ہے تو اس کے لیے فروخت کرنا اور نفع حاصل کرنا جائز ہوگا، ویجوز بیع العقار قبل القبض عند أبی حنیفۃ وأبی یوسف ۔(ہدایہ:۳/۵۸) جہاں تک مشتری کے کنگال ہونے کی صورت میں روپئے کی وصولیابی کا مسئلہ ہے تو یہ بائع کی ذمہ داری ہے کہ رقم وہ کس طرح وصول کرے یا معاف کردے ، نیز یہ امکان تو ہر قرض ہی میں رہتا ہے ، اس کی وجہ سے نفسِ بیع کو بالکلیہ کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح بائع کی وفات ہوجانے کی صورت میں بائع کے ورثاء کے لیے شرعاً اس زمین پر اپنے نام چڑھوانا درست نہ ہوگا، گو قانوناً ان کو اس کی اجازت ہے ، ہم تو شریعت کے پابند ہیں۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم فخر الاسلام عفی عنہ……نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۳/۳/۱۴۳۳ھ