ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
''عمرو بن شعیب اپنے والدسے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی وضو کے بارے میں سوال کرتے ہوئے (یعنی وضو کا طریقہ پوچھتے ہوئے ) رسول اللہ ۖ کی خدمت میںحاضر ہوئے توآپ نے اُن کو تین تین دفعہ وضو کر کے دکھایا (یعنی ایسا وضو کر کے دکھایا جس میں آپ نے دھوئے جانے والے اعضاء کو تین تین دفعہ دھویا) اس کے بعد آپ نے اُن اعرابی سے فرمایا کہ وضو ایسے ہی کیا جاتا ہے، تو جس نے اِس میں اپنی طرف سے کچھ اور اضافہ کیا تو اُس نے برائی کی اور زیادتی کی اور ظلم کیا۔ '' تشریح : اس حدیث میں رسول اللہ ۖ نے وضو میں اضافہ کرنے کی جو سخت مذمت کی ہے اُس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ اعضائِ وضو کے صرف تین تین بار دھونے سے کامل و مکمل وضو ہوجاتا ہے اب جو شخص اِس میں کوئی اضافہ کرے گا وہ گویا شریعت میں اپنی طرف سے ترمیم کرے گا اور بلا شبہ یہ اُس کی بُری جسارت اور بڑی بے ادبی ہوگی۔ (١٧) عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ۖ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ وَاحِدَةً فَتِلْکَ وَظِیْفَةُ الْوُضُوْئِ الَّتِیْ لَا بُدَّ مِنْھَا وَمَنْ تَوَضَّأَ اثْنَیْنِ فَلَہ کِفْلَیْنِ وَمَنْ تَوَضَّأَ ثَلٰثًا فَذٰلِکَ وُضُوْئِیْ وَ وُضُوْئُ الْاَنْبِیَائِ قَبْلِیْ ۔ (مُسند احمد رقم الحدیث ٥٧٣٥) ''حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا جو وضو کرے ایک دفعہ (یعنی دھوئے جانے والے اعضاء کو اُس میں صرف ایک ہی ایک دفعہ دھوئے) تو یہ وضو کا وہ درجہ ہے جس کے بغیرکوئی چارہ ہی نہیں (اور اِس کے بغیر وضو ہوتا ہی نہیں) اور جو وضو کرے دو دو مرتبہ (یعنی اُس میں اعضائِ وضو کو دو دو دفعہ دھوئے) تو اِس کو (ایک ایک دفعہ والے وضو کے مقابلہ میں) دو حصے ثواب ہوگا اور جس نے وضو کیا تین تین دفعہ (جو افضل اور مسنون طریقہ ہے) تو یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا (یعنی میرا دستور اعضائِ وضو کو تین تین