ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
کہ اِن مدات کے لیے عطیات پیش کریں قرآنِ حکیم نے ان کو قرض اور انفاق فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا ہے یعنی جس طرح موجودہ حکومتیں قومی قرض لیتی ہیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اِس طرح کا قرض مسلمان بھی دیں مگر فرق یہ ہے کہ موجودہ حکومتیں پبلک سے قرض سود کے وعدے پر لیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قرض دینے والے دولت مندوں کے پاس سے کچھ نہیں جاتا جو کچھ وہ دیتے ہیں وہ کچھ عرصہ کے بعد سود سمیت واپس آجاتا ہے یہ تمام قرض ٹیکس ادا کرنے والے غریبوں پر پڑتا ہے قرآنِ حکیم اِس طرح کے فریب کو گوارا نہیں کرتا وہ قرض کے بہانہ عوام پر بار نہیں ڈالتا بلکہ دولتمندوں پر ہی بار ڈالتا ہے اور اُن ہی کی گرہ سے لیتا ہے اور وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِس کی ادائیگی دوسرے عالَم میں ہوگی جہاں سونے اور چاندی کا سکہ نہیں چلے گا بلکہ نیک کام، راہِ خدا میں خرچ اور جہاد فی سبیل اللہ وہاں کے سکے ہوں گے۔ البتہ امیروں اور دولت مندوں کو یہ سمجھاتا ہے کہ جو کچھ آپ سے قرض لیا جاتا رہا ہے اللہ کو اِس کی ضرورت نہیں ہے وہ تمہاری ہی ضرورتوں کے لیے ہے کیونکہ قومی اور ملی ضرورتیں تمہاری ہی ضرورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کی ضرورتیں نہیں، قوم کی ترقی ہوگی تو تمہاری بھی ترقی ہوگی قوم کا مفاد خود تمہارا مفاد ہے کیونکہ تمہارے ہی مجموعہ کا نام قوم ہے سورۂ محمدکی آخری آیتیں مطالعہ فرمائیے جن کا ترجمہ یہ ہے : ''ہاں دیکھو ! تم کو بلایا جاتا ہے کہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں، پس بعض تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں (یاد رکھو) جو بخل کرتا ہے وہ بخل کرتا ہے خود اپنے سے (کیونکہ ملی اور قومی ضرورتیں خود تمہاری ضرورتیں ہیں) اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں ہے (وہ بے نیاز ہے) محتاج خود تم ہی ہو (قوم کی ضرورتیں خود تمہاری ضرورتیں ہیں)۔ یاد رکھو ! اگر تم رُو گردانی کروگے تواللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو پیدا کردے گا پھرتم جیسے نہ ہوں گے۔'' ( سورۂ محمد : ٣٨) جن کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت بخشی ہے جن کے پاس اپنے ذاتی خرچ کے بعد کچھ بچ رہتا ہے اُن کو یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے تحفظ اور بقاء کی اُن کو بہرحال ضرورت ہے اگر اُن کی حکومت نہیں ہے