رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اس سے زیادہ بہتر کوئی کلمہ نہیں۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ ہمارے شیخ رحمۃ اللہ علیہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کا ورد طالبین کو بہت تاکید سے کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب تک بندہ اپنی طاقت پر نظر رکھتا ہے حق تعالیٰ کی مدد نہیں آتی۔ لیکن جب کہ کہتا ہےلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ تو گویا اس کلمہ سے اقرار کرتا ہے کہ میں ضعیف ہوں اور میرے اندر گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیک اعمال کرنے کی طاقت آپ ہی کی مدد سے آئے گی، ہم ضعیف ہیں آپ قوی ہیں پس حق تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور توفیق کا خزانہ بھیج دیتے ہیں اور یہی توفیق جنّت تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ اگر ہر روز ستر مرتبہ یہ کلمہ پڑھ لیا جاوے تو عمل کی توفیق کے لیے اکسیر ہے اور نماز سے پہلے پڑھ لے تو نماز عمدہ ادا ہو۔؎ 89۔ وَعَنْ مُّعَاذِ ابْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ بِہٖ اِلَی الْیَمَنِ قَالَ اِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ فَاِنَّ عِبَادَ اللہِ لَیْسُوْا بِالْمُتَنَعِّمِیْنَ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ؎ ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن روانہ فرمایا تو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے آپ کو استراحت وتن آسانی سے بچا اس لیے کہ اللہ کے ( خاص ) بندے آرام وآسایش حاصل نہیں کرتے۔ تشریح:اس حدیث میں جس آرام وآسایش سےمنع فرمایا گیا ہے اس سے مراد وہ عیش وآرام ہے جس کے لیے ہر وقت ایسی فکر اور کاوش اور حرص کرنی پڑے جو آخرت کی طرف سے انسان کو غافل کردے، اور اگر بے تکلف کیے اور بغیر کاوش واہتمام وحرص حق تعالیٰ کوئی راحت عطا فرمادیں اور اس پر شکر کی توفیق ہو اور آخرت سے غافل نہ کرے تو اس کی اجازت ہے مگر حق تعالیٰ کے اولیاء وعاشقین نے سادھی زندگی کو پسند فرمایا ہے اور عیش کی زندگی سے کنارہ کش رہے ہیں۔ ------------------------------