رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
بہت کم ہیں ایسے لوگ جن کی عمر اس سے زیادہ ہو۔ لہٰذا زیادہ زندگی کی اُمید سے عمل میں تاخیر نہ کرے۔فصلِ سوم 105۔وَعَنْ عَمْرِِوابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَوَّلُ صَلَاحِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الْیَقِیْنُ وَالزُّھْدُ وَاَوَّلُ فَسَادِھَا الْبُخْلُ وَالْاَمَلُ۔ رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ؎ ترجمہ: حضرت عمرو ابن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اُمت کی پہلی نیکی یقین اور زہد ہے اور پہلا فساد بخل اور آرزو ہے۔ تشریح:یقین سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے رزاق ہونے پر یقین ہو جیسا کہ ارشاد ہے:وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزۡقُہَا؎ ترجمہ:اور نہیں ہے چلنے والا کوئی زمین پر مگر اس کی روزی حق تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور یہ ذمہ بطور احسان وفضل کے ہے یعنی وجوبِ تفضُّلی اور احسانی ہے نہ کہ وجوب قانونی اور ضابطہ۔اور زہد کا مفہوم بے رغبت ہونا ہے دنیائے فانی سے، پس جب حق تعالیٰ کی رزاقیت پر یقین ہوگا بخل نہ کرے گا اور جب دنیا سے بے رغبت ہوگا زیادہ آرزو میں مبتلا ہو کر اعمال سے غافل نہ ہوگا۔ اُصول کے لحاظ سے چار باتوں پر یقین پیدا ہوجاوے تو دین کامل عطا ہو: ۱۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پریقین ہونا کہ بدون اس کے حکم کے کچھ نہیں ہوتا۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کی رزق کی ضمانت پر یقین رکھنا۔ ۳۔ اللہ تعالیٰ کا اعمالِ نیک پر جزا اور اعمالِ بد پر سزا دینے کا یقین ہونا۔ ۴۔ اللہ تعالیٰ کا تمام اعمال اوراحوال پر مطلع ہونے کا یقین ہونا۔ ------------------------------