رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
فصلِ دوم 121۔وَعَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَوْ اَنَّکُمْ تَتَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ تَغْدُوْخِمَا صًاوَّتَرُوْحُ بِطَانًا۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ؎ ترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرلو جیسا کہ بھروسہ کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ( اپنے گھونسلوں میں ) جاتے ہیں۔ تشریح:توکل کا حق یہ ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے ہاتھ میں اپنا ضرر یا نفع ، رزق، فقر ، غنا ، عطا ، مرض ، صحت ، عزت ، ذلت ، موت حیات وغیرہ نہ سمجھے اور یقین کرے کہ یہ سب حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ پس کسی نعمت کی طلب میں بہت رنج نہ اٹھائے اور حرص اور مبالغہ نہ اٹھائے کہ حلال وحرام کا فرق بھی نہ کرے۔ علامہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص توکل کا مفہوم یہ سمجھے کہ بس زمین پرپڑا رہے اور تدابیر وکسبِ معاش نہ کرے تو وہ جاہل ہے ۔ منقول ہے کہ کوے کا بچہ جب انڈے سے نکلتا ہے تو سفید ہوتا ہے جو کوے کو بُرا لگتا ہے اور چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے حق تعالیٰ اس کی طرف رزق کے لیے مکھی اور چیونٹی بھیجتے ہیں کچھ دن میں وہ سیاہ ہونے لگتا ہے پھر کوا اس کو لے کر پرورش کرتا ہے۔ اور اسی طرح بہت سے واقعات ہیں۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ تدبیرنہ کرے، چڑیوں کا باہر نکلنا بھی تدبیر ہے اور انسان کے لیے اس کے مناسب تدبیر ہوگی ۔البتہ بھروسہ تدبیر پر نہ کرے ------------------------------