رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اَقُوْلَ بِالْحَقِّ وَاِنْ کَانَ مُرًّا وَّاَمَرَنِیْ اَنْ لَّا اَخَافَ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ وَّاَمَرَنِیْ اَنْ اُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ فَاِنَّھُنَّ مِنْ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ ؎ ترجمہ:حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میرے خلیل جانی دوست نے مجھ کو سات باتوں کا حکم دیا ہے: حکم دیا مجھ کو یہ کہ میں مساکین سے محبت کروں اور ان سے قریب رہوں، اور یہ حکم دیا کہ میں اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو دیکھوں اور اپنے سے بالاتر لوگوں کو نہ دیکھوں، اور یہ حکم دیا کہ میں قرابت داروں سے ناتے بندی کو قائم رکھوں اگر چہ خود رشتہ دارہی قرابت داری کو منقطع کردیں،اور یہ حکم دیا کہ میں کسی سے کسی چیز کا سوال نہ کروں،اور یہ حکم دیا کہ میں سچی بات کہوں اگر چہ وہ تلخ ہو، اور حکم دیا کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی کی ملامت سے نہ ڈروں، اور یہ حکم دیا کہ میں اکثر لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہتا رہوں۔ یہ تمام عادتیں اور باتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرشِ الٰہی کے نیچے ہے۔ تشریح:حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ یہ معنوی خزانہ ہے جو عرشِ رحمٰن کے نیچے ہے اور وہاں تک کوئی نہ پہنچے گا مگر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِکی برکت سے ، یا خزانہ سے مراد جنّت کے خزانے ہیں جو عرشِ الٰہی کے نیچے ہیں اس لیے جنّت کی چھت عرش ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کلمہ کو پڑھا تو ارشاد فرمایا کہ اے عبد اللہ بن مسعود ! جانتے ہو کہ کیا تفسیر ہے اس کی ؟ عرض کیا کہ اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں اس کو۔ ارشاد فرمایا کہ اس کلمہ کا مفہوم یہ ہے کہ نہیں کوئی گناہوں سے محفوظ رہ سکتا مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور نہیں کوئی نیک عمل ہوسکتا ہے مگر حق تعالیٰ کی مدد سے۔ اِنْتَھٰیمشایخِ شاذلیہ قدس اللہ اسرارہم نے اپنے طالبین کو وصیت فرمائی کہ اس کلمہ کا زیادہ وِرد رکھیں اور فرمایا کہ توفیقِ عمل کے لیے ------------------------------