رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں، اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ( کیا اس کے اعمالِ خیر کا ثواب قائم رہتا ہے یا باطل ہوجاتا ہے ) آپ نے فرمایا یہ ( تعریف کرنا ) مومن کے لیے فوری خوش خبری ہے ( اور اصل خوش خبری آخرت میں ہے)۔ تشریح:یعنی جب اخلاص کے ساتھ صرف رضائے الٰہی کے لیے طاعات کیں اور پھر مخلوق بھی ایسے نیک بندوں کی تعریف کرتی ہے تو یہ مقبولیت اور محبوبیت اور تعریف اس کے لیے حق تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں نقد انعام ہے اور نقد بشارت ہے، اور آخرت میں ثواب اور درجہ سو وہ الگ ملے گا۔فصلِ دوم 140۔وَعَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَتْ نِیَّتُہٗ طَلَبَ الْاٰخِرَۃِ جَعَلَ اللہُ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَجَمَعَ لَہٗ شَمْلَہٗ وَاَتَتْہُ الدُّنْیَا وَھِیَ رَاغِمَۃٌ وَّمَنَ کَانَتْ نِیَّتُہٗ طَلَبَ الدُّنْیَا جَعَلَ اللہُ الْفَقْرَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَشَتَّتَ عَلَیْہِ اَمْرَہٗ وَلَا یَاْتِیْہِ مِنْھَا اِلَّا مَا کُتِبَ لَہٗ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ وَالدَّارَمِیُّ عَنْ اَبَانَ عَنْ زَیْدِ ابْنِ ثَابِتٍ؎ ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی نیت ( اعمالِ خیر سے ) آخرت کی طلب ہو اللہ تعالیٰ اس کو غنائے قلبی عطا فرماتا ہے ( یعنی اس کو مخلوق سے بے پروا کردیتا ہے ) اور اس کی پریشانیوں کو جمع کرکے اطمینانِ خاطر بخشتا ہے، دنیا اس کے پاس آتی ہے اور وہ دنیا کو ذلیل وخوار سمجھتا ہے، ------------------------------