رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
40- وَعَنْ اَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُجَاءُ بِابْنِ اٰدَمَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَاَنَّہٗ بَذَجٌ فَیُوْقَفُ بَیْنَ یَدَیِ اللہِ فَیَقُوْلُ لَہٗ اَعْطَیْتُکَ وَخَوَّلْتُکَ وَاَنْعَمْتُ عَلَیْکَ فَمَاصَنَعْتَ فَیَقُوْلُ رَبِّ جَمَعْتُہٗ وَثَمَّرْتُہٗ وَتَرَکْتُہٗ اَکْثَرَ مَا کَانَ فَاَرْجِعْنِیْ اٰتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ فَیَقُوْلُ لَہٗ اَرِنِیْ مَا قَدَّمْتَ فَیَقُوْلُ رَبِّ جَمَعْتُہٗ وَثَمَّرْتُہٗ وَتَرَکْتُہٗ اَکْثَرَ مَا کَانَ فَاَرْجِعْنِیْ اٰتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ فَاِذَا عَبْدٌ لَّمْ یُقَدِّمْ خَیْرًافَیُمْضٰی بِہٖ اِلَی النَّارِ- رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَضَعَّفَہٗ ؎ ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:آدم کا بیٹا قیامت کے دن ( اس طرح ) لایا جائے گا گویا کہ بکری کا بچہ ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میں نے تجھ کو زندگی عطاکی تھی، میں نے تجھ کو لونڈی، غلام اور مال ودولت دیا تھا اور میں نے تجھ پر انعام کیا تھا ( یعنی کتاب اور اپنے رسول تیری ہدایت کے لیے بھیجے تھے )پس تو نے کیا کام کیا؟ آدمی کہے گا: اے پروردگار!میں نے مال کو جمع کیا اس کو تجارت وغیرہ سے بڑھایا اور اس سے زیادہ دنیا میں اس کو چھوڑ آیا جتنا کہ وہ تھا، مجھ کو دنیا میں پھر بھیج دے کہ میں اپنے سارے مال کو تیرے پاس لے آؤں ( یعنی دنیا میں جا کر اس کو خیرات کردوں)پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ جو مال کہ تو نے آگے بھیج دیا ہے ( یعنی آخرت کے لیے ) اس کو دکھلا۔ وہ جواب میں کہے گا:اے پروردگار! میں نے مال کو جمع کیا بڑھایا اور اس سے زیادہ تعداد میں دنیا کے اندر چھوڑ آیا جتنا کہ وہ تھا، تو مجھ کو دنیا میں بھیج دے کہ میں اپنے سارے مال کو تیرے پاس لے آؤں ۔آخر وہ ایک ایسا بندہ ثابت ہوگا جس نے آخرت میں کچھ ذخیرہ نہ کیا ہوگا اور اس کو دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا۔ تشریح: پس معلوم ہوا کہ نعمتِ حقیقی وہ ہے جو آخرت کی سعادت اور کامیابی کا سبب بن جاوے۔ اور جس نعمت کے غلط استعمال سے آخرت تباہ ہو تو وہ نعمت اس کے حق ------------------------------