رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
کہ میں طالب الآخرۃ ہوں اور دنیا آخرت کے لیے مثل سوتن کے ہے اور ضد ہے اس کی ۔ 33-وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اِنَّ اَغْبَطَ اَوْلِیَائِیْ عِنْدِیْ لَمُؤْمِنٌ خَفِیْفُ الْحَاذِ ذُوْحَظٍّ مِّنَ الصَّلٰوۃِ اَحْسَنَ عِبَادَۃَ رَبِّہٖ وَاَطَاعَہٗ فِی السِّرِّ وَکَانَ غَامِضًا فِی النَّاسِ لَایُشَارُ اِلَیْہِ بِالْاَصَابِعِ وَکَانَ رِزْقُہٗ کَفَافًا فَصَبَرَ عَلٰی ذٰلِکَ ثُمَّ نَقَرَ بِیَدَیْہِ فَقَالَ عُجِّلَتْ مَنِیَّتُہٗ قَلَّتْ بَوَاکِیْہِ قَلَّ تُرَاثُہٗ-رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ؎ ترجمہ:حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نزدیک میرے دوستوں میں قابلِ رشک وہ مومن ہے جو نہایت سبک ہو دنیا کے مال اور خیال سے،خوش نصیب ہو نماز کے اعتبار سے، اپنے پروردگار کی عبادت خوبی کے ساتھ کرتا ہو اور مخفی طریقہ پر طاعتِ الٰہی میں مشغول ہو۔ لوگوں میں گم نام ہو، اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہ کیا جائے،اس کی روزی صرف کفایت کے درجہ کی ہو، اسی پر وہ صابر اور قانع ہو۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹکی بجائی اورپھر فرمایا: جلدی کی گئی اس کی موت میں، کم ہیں اس کی رونے والی عورتیں اور حقیر ہے میراث اس کی۔ تشریح:ایک بزرگ کا مقولہ ہے کہ سبکسار مردم سبکتر روند، ہلکے پھلکے آدمی جو سامانِ سفرزیادہ نہ رکھتے ہوں بآسانی سفر ہلکے پھلکے طے کرتے ہیں۔ پس انسان دنیا میں مسافر ہے۔ جس قدر اسباب اور تعلقات کے بوجھ سے ہلکا ہوگا، آخرت کے اعمال کے لیے وقت فارغ ہو گا اور روح بھی آسانی سے نکلے گی۔ اور انگلیوں سے اشارہ نہ کیا جانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے جاہ اور شہرت کا ارادہ نہ کرے اور نہ امتیازی شان بنائے اس کے باوجود اگر حق تعالیٰ شانہٗ جاہ اور شہرت عطا فرمادیں تو وہ مضر نہیں بلکہ ------------------------------