رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
ہے اور عند الخلق بھی۔ صاحبِ مظاہرِ حق لکھتے ہیں کہ زہدِ کامل یہ ہے کہ دنیا پاس ہو اور پھر بھی اس کی طرف رغبت نہ کرے۔ حضرت علامہ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے کسینے کہا یَا زَاہِدُ ۔ آپ نے فرمایا کہ میں زاہد نہیں ہوں، زاہد تو حضرت عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ تھے کہ دنیا ان کے پاس چلی آتی تھی اور وہ دنیا کو منہ نہ لگاتے تھے اور ہم کس چیز میں زہد کریں گے۔ 32- وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَامَ عَلٰی حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ اَثَّرَ فِیْ جَسَدِہٖ فَقَالَ لَہُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضی اللہُ عَنْہُ یَارَسُوْلَ اللہِ لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نَّبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ فَقَالَ مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا وَمَااَنَا وَالدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ نِاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا- رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ ؎ ترجمہ: حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوریے پر سوئے، سو کر اٹھے تو آپ کے جسم پر بوریے کے نشان تھے، ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ ! اگر آپ ہم کو حکم دے دیتے تو ہم آپ کے لیے فرش بچھادیتے اور کپڑے بنادیتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مجھ کو دنیا سے کیا مطلب ۔ میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سوار کسی درخت کے نیچے کھڑا ہو کر سایہ سے فائدہ اٹھالے اور پھر چل دے اور درخت کو اپنی جگہ چھوڑ جائے۔ تشریح:مرقاۃشرح مشکوٰۃ میں اس کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں: اگر ’’ما ‘‘ نفی کے لیے ہے تو مفہوم یہ ہوگا کہ نہیں ہے مجھے اُلفت دنیا سے اور نہ دنیا کو مجھ سے کہ میں رغبت کروں دنیا کی طرف یا جمع کروں دنیا ،اور اگر ’’ما ‘‘ استفہامیہ ہے تو مفہومِ حدیث یہ ہوگا کہ وہ کیا شے ہے جس کے سبب میں دنیا سے محبت اور اُلفت کروں یا دنیا مجھ سے کرے، کیوں ------------------------------