رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
لیے گھر ۔ ۲) تن ڈھانکنے کو کپڑا ۔ ۳) خشک روٹی ۔ ۴) اور پانی ۔ تشریح :مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ جو شخص مذکورہ حلال نعمتوں پر اکتفا کرے گا اس سے قیامت کے دن حساب ان کے متعلق نہ ہوگا۔کیوں کہ یہ نفس کے حقوقِ ضروریہ سے ہیں،اور جو ان کے علاوہ حظوظ اور لذتوں کا سامان مہیا کرے گا ان کے متعلق سوال ہوگا اور ان کے شکر کا مطالبہ ہوگا ۔؎ 31- وَعَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ دُلَّنِیْ عَلٰی عَمَلٍ اِذَا اَنَا عَمِلْتُہٗ اَحَبَّنِیَ اللہُ وَاَحَبَّنِیَ النَّاسُ قَالَ اِزْھَدْ فِی الدُّنْیَا یُحِبُّکَ اللہُ وَازْھَدْ فِیْمَا عِنْدَ النَّاسِ یُحِبُّکَ النَّاسُ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ؎ ترجمہ:حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھ کو کوئی ایسا عمل بتائیے کہ میں جب اس کو کروں تو خدا اور خدا کے بندے مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی طرف رغبت نہ کر خدا تجھ سے محبت کرے گا اور اس چیز کی خواہش نہ کر جو لوگوں کے پاس ہے یعنی جاہ ودولت ، لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ تشریح: بزرگوں نے لکھا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے کا پہلا قدم زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی ہے۔ پس جس کو حق تعالیٰ شانہٗ اپنا بنانا چاہتے ہیں اس کے دل کو دنیا سے اچاٹ (بے رغبت ) کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا ترک کردیتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے گردوپیش ہوتی ہے اس کے دل میں نہیں ہوتی۔ دل اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کردیتاہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا کہ ایمان نام ہے اللہ تعالیٰ کو دل دے دینا اور اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کو جسم دے دینا یعنی جسم کو احکامِ شرع کے تابع کردینا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا خاص ہوجاتا ہے وہ لوگوں کی جاہ اور دولت سے بے پروا ہوجاتا ہے۔جس کے سبب محبوب عند الخالق ہوجاتا ------------------------------