رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:اگر جاہ اور مال اور کھیتی اور تجارت کے ہوتے ہوئے دل اللہ کے ساتھ ہے تو یہ شخص خلوت نشین اور باخدا ہے اور اس کی یہ دنیا اس کی آخرت کے لیے مضر نہیں ہے۔ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ... اَلْاٰیَۃ؎ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مردانِ خدا وہ ہیں جن کو بڑی سے بڑی تجارت اور نہ چھوٹی تجارت اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے نہآخرت کے ہولناک مناظر کے خوف سے۔ 23-وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَحَبَّ دُنْیَاہُ اَضَرَّ بِاٰخِرَتِہٖ وَمَنْ اَحَبَّ اٰخِرَتَہٗ اَضَرَّ بِدُنْیَاہُ فَاٰ ثِرُوْا مَایَبْقٰی عَلٰی مَایَفْنٰی۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ؎ ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی دنیا کو عزیز ومحبوب رکھتا ہے ( اس قدر محبوب رکھنا کہ اللہ کی محبت پرغالب آجائے ) وہ اپنی آخرت کو ضرر پہنچاتا ہے اور جو شخص اپنی آخرت کو عزیز رکھتا ہے وہ اپنی دنیا کو ضرر پہنچاتا ہے، پس تم اس چیز کو اختیار کرلو جو باقی رہنے والی ہے اور فنا ہونے والی چیز کو چھوڑ دو۔ تشریح: ہر عاقل دنیا اور آخرت کی فکر اور تیاری اور محنت دونوں مقامات میں رہنے کے زمانے میں غور کرکے توازن قائم کرسکتا ہے کہ کہاں کتنا رہنا ہے۔ دنیا کی محبت مطلق مذموم نہیں بلکہ اس شرط سے دنیا کی محبت بُری ہے کہ وہ آخرت پر غالب آجائے۔ مثنوی شریف میں دنیا اور آخرت کےامتزاج کو اس طرح سمجھایا گیا ہے ؎ آب اندر زیر کشتی پشتی ا ست آب در کشتی ہلاک کشتی ا ست ------------------------------