رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
دیتاہے۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں لَوۡ لَاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ؎... الخ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے انسان کافر ہوجاتے تو کافروں کے گھروں کی چھت کو ہم چاندی کی کر دیتے۔ دنیا جب اس درجہ بے وقعت ہے پھر اس کے لیے اپنے مولیٰ اور مالک حق تعالیٰ کو ناراض کرنا کس درجہ نادانی ہوگی! نیز اگر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ڈھیل دینے کے لیے دنیا کی چند روزہ بہار دے دی ہے تو کافروں کی اس دنیا کی طرف نگاہ اٹھا کربھی نہ دیکھنا چاہیےجیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۟ ثُمَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؎یہ دنیا جو کافروں کے پاس ہے چند روزہ بہار ہے پھر انجام کار ان کا ٹھکانہجہنم ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہےکہ یہ دنیا جو کافروں کے پاس ہے وہ نعمت نہیں ہے بلکہ عذاب ہے لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا؎ تاکہ عذاب دے اللہ تعالیٰ ان کو ان کی دنیا سے ان کی دنیاوی زندگی میں۔ اگر بادشاہ پھانسی کے ملزم کو ایک ماہ کے لیے مہلت دے اور اس مہلت کے زمانے میں خوب اس کو سامانِ عیش دے دے تو کیا کوئی عقل مند اس کے عیش پر لالچ کر سکتا ہے؟ بادشاہ ہارون رشید کے صاحبزادے نے جو انتہائی زاہدانہ زندگی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہورہا تھا یہ دو شعر اپنے رفیق ابو عامر بصری کو بطور وصیت کے سنائے تھے ؎ یَا صَاحِبِیْ لَاتَغْتَرِرْ بِتَنَعُّمِیْ فَالْعُمْرُ یَنْفَدُ وَالنَّعِیْمُ یَزُوْلٗ فَاِذَا حَمَلْتَ اِلَی الْقُبُوْرِ جَنَازَۃً فَاعْلَمْ بِاَنَّکَ بَعْدَھَا مَحْمُوْلٗ ترجمہ : اے ساتھی! دنیا کی نعمتوں سے دھوکا نہ کھانا، عمر ایک دن ختم ہونے والی ہے اور نعمتیں تم سے ختم یا جدا ہونے والی ہیں۔ ------------------------------