رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
ترجمہ:یہ احقر کی مثنوی کا شعر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مولانا رشید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد ہے کہ ذکر کو خواہ سکون میں ہو یا بے سکون ہر حالت میں مفید پاؤ گے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ماضی ومستقبلت پردہ خدا ست یعنی سالک کو ماضی کا غم اورمستقبل کا اندیشہ اصلاحِ حال سے محروم کر دیتا ہے۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ ماضی کے گناہوں سے ایک مرتبہ دل سے توبہ کرکے پھر بار بار اسی کی یاد میں نہ لگا رہے ،بندہ خدا کی یاد کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ گناہوں کی یادکےلیے، اسی طرح مستقبل کا اندیشہ کہ جب پھر گناہ ہوجائے گا تو اس توبہ سے فائدہ ہی کیا،یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں حجاب ہیں، آیندہ کے لیے صرف پختہ ارادہ گناہ نہ کرنے کا کافی ہے، اور اگر ہوگیا تو پھر توبہ سے اس کی تلافی کا راستہ ہے۔خلاصہ یہ کہ آیندہ کا انتظار کہ کیا ہوگا نہ چاہیے، جس حالت میں سانس لے رہا ہے اس سانس کو اعمالِ صالحہ میں لگائے اور گناہوں سے بچائے، حال کو درست رکھے اور آج کا کام کل پر نہ ٹالے ؎ نیست فرد اگفتن از شرطِ طریق اعمال کو کل پر ٹالنا خلافِ طریق ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے کے اُصول کے خلاف ہے۔ اس حدیث شریف میں اسی بیماری کا علاج ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بعض لوگ مفلس ہیں وہ مال داری کے انتظار میں اعمالِ آخرت کی طرف اپنے کو مشغول نہیں کرتے اور جو مال دار ہیں وہ افلاس کے انتظار میں ہیں یعنی دولت کو گناہوں یا فضول کاموں میں اُڑارہے ہیں حالاں کہ اس دولت سے ذخیرۂ آخرت کرسکتے تھے اسی طرح صحت کو نافرمانیوں یا غفلتوں میں ضایع کرتے ہیں گویا بیماری کا انتظار کررہے ہیں آخرت کے اعمال کے لیے۔ اسی طرح جوانی کو رائیگاں کررہے ہیں بڑھاپے کے انتظار میں اور زندگی کو ضایع کررہے ہیں موت کے انتظار میں اور باقی مضمون کو اس تشریح پر قیاس کرلیا جاوے ۔ انتظار کرنے کا عنوان ڈانٹ اور تنبیہ کے لیے ہے کہ غفلت کا پردہ چاک ہو۔