رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
19۔وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا یَنْتَظِرُ اَحَدُکُمْ اِلَّاغِنًی مُّطْغِیًا اَوْ فَقْرًا مُّنْسِیًا اَوْ مَرَضًا مُّفْسِدًا اَوْ ھَرَمًا مُفْنِدًا اَوْمَوْتًا مُّجْھِزًا اَوِالدَّجَّالَ فَالدَّجَّالُ شَرُّغَائِبٍ یُّنْتَظَرُاَوِالسَّاعَۃَ وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرُّ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَالنَّسَائِیُّ ؎ ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص دولت مندی اور تو نگری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو گناہ گار کرنے والی ہے یا افلاس کا انتظار کرتا رہتا ہے جو خدا کو بھلا دینے والا ہے (دولت کی قدر نہ کرکے اس کو ضایع کردینا گویا افلاس کا انتظار کرنا ہے ) یا بیماری کا انتظار کرتا ہے (یعنی صحت کی قدر نہ کرنے کے سبب ) جو بدن کو خراب وتباہ کردینے والی ہے یا بڑھاپے کا انتظار کرتا ہے جو بدحواس وبے عقل بنادیتا ہے یا موت کا انتظار کرتا رہتا ہے جو ناگہاں اور جلد آنے والی ہے یا دجال کا انتظار کرتا ہے جو بُرا غائب ہے جس کا انتظار کرتا رہتا ہے یا قیامت کا انتظار کرتا ہے جو سخت ترین اور تلخ ترین حوادث میں سے ہے۔ تشریح:یعنی اس انتظار اور آج کل کے وعدوں میں انسان آخرت کی تیاری سے غافل رہتا ہے،اسی لیے حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکر اللہ اور طاعات کے لیے سکون اور اطمینان کا انتظار نہ کرو۔ جس حالت میں بھی ہو فوراً خدا کی یاد میں لگ جاؤ کہ یادِ خدا ہی سے تو اطمینان نصیب ہوگا اور تم یادِ خدا کو اطمینان کے انتظار میں موقوف کیے ہوئے ہو ، یہ کس درجہ نادانی ہے! ذکر ہر حالت میں مفید ہے خواہ تشویشِ قلب کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ؎ گفت قطب شیخ گنگوہی رشید ذکر را یابی بہ ہر حالت مفید ------------------------------