رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
تشریح:اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا میں چین اور آرام اور سکون والی زندگی اسی وقت مل سکتی ہے جب بندہ اپنے مولیٰ کی عبادت کے لیے وقت کو فارغ کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو دنیا کی ہوس اور فکر سے ہر وقت اس کی زندگی تلخ رہے گی اور ملے گا اتنا ہی جتنا قسمت میں ہے۔ 17۔وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ ذُکِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعِبَادَۃٍ وَّاجْتِھَادٍ وَّذُکِرَ اٰخَرُ بِرِعَۃٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَعْدِلْ بِالرِّعَۃِ یَعْنِی الْوَرَعَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ؎ ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبادت اور اطاعتِ الٰہی میں کوشش کا ذکر کیا ایک شخص نے پرہیز گاری کاذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس کو ( یعنی عبادت اوراطاعت میں کوشش کرنا ) پرہیز گاری کے مساوی نہ ٹھہرا ( یعنی پرہیز گاری بڑی چیز ہے )۔ تشریح:تقویٰ کے ساتھ تھوڑی عبادت سے بھی بڑی برکت ہوتی ہے اور کثرتِ عبادت کے ساتھ گناہوں کی بھی عادت سے بڑی بے برکتی رہتی ہے اسی لیے حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک گناہ کی عادت کو ترک کردینا لاکھوں تہجد کی نمازوں سے افضل ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے اولیاء وہی ہیں جو متقی ہیں۔ گناہوں کی عادت اور اصرار کے ساتھ کوئی شخص صاحبِ نسبت(یعنی ولی اللہ ) نہیں ہوسکتا۔ ولایت اور فسق میں تضاد ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ولی بننے کے لیے ایمان کے ساتھ تقویٰ کا حصول بھی ضروری ہے جو عادتًا متقین کاملین کی صحبت کے فیضان سے حاصل ہوا کرتا ہے ؎ ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر ------------------------------