رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
۴۔ جو چیز تو اپنے لیے پسند کرتا ہے دوسروں کے لیے بھی پسند کر اگر ایسا کرے گا تو کامل مسلمان ہوگا۔ ۵۔ اور زیادہ نہ ہنس اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔ تشریح:حدیثِ مذکور سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے جن اعمال کو ہمارے اوپر حرام فرمایا ہے ان سے احتیاط کرنے والا بہترین عبادت گزاروں میں شمار ہوگا۔ اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو نوافل اور تسبیحات اور وظائف کا تو اہتمام کرتے ہیں مگر گھروں میں تصاویر لگانے اور پائجامے ٹخنے سے نیچے کرنے اور داڑھی کٹانے یا منڈانے سے احتیاط نہیں کرتے اور اسی طرح جھوٹ ، غیبت ، بدنگاہی ، رشوت ، تکبر وغیرہ ، محرمات سے نہیں بچتے-محارم سے مراد نافرمانی کرنا حکمِ شرع کی اور ترک کرنا اعمالِ ضروریہ کا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ قضا نمازوں کو ادا نہیں کرتے اور نوافل اور وظیفوں میں بہت مشغول نظر آتے ہیں اور فقراء کو خوب خیرات کرتے ہیں اور خوب مساجد میں چندہ دیتے ہیں۔ نفل کی تو فکر اور فرض سے غفلت،کس درجہ نادانی ہے! نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عالم بے عمل کو بھی امر بالمعروف جائز ہے۔؎ 16۔وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللہَ یَقُوْلُ یَاابْنَ اٰدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِیْ اَمْلَأْ صَدْرَکَ غِنًی وَّاَسُدُّ فَقْرَکَ وَاِنْ لَّاتَفْعَلْ مَلَأتُ یَدَکَ شُغْلًا وَّلَمْ اَسُدَّ فَقْرَکَ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَۃَ ؎ ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے تو اپنے دل کو اچھی طرح مطمئن اور فارغ کرلے میں تیرے دل میں غنیٰ ( بے پروائی ) بھردوں گا اور فقر واحتیاج کے سوراخوں کو بند کردوں گا اور اگر تو ایسا نہ کرے گا تو میں تیرے ہاتھوں کو ( دنیا کے ) مشاغل سے بھردوں گا اور تیرے فقر وافلاس کے سوراخوں کو بھی بند نہ کروں گا۔ ------------------------------