رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
۱۔چوں سلطان ِ عزت علم برکشد جہاں سر بجیبِ عدم در کشد ۲۔ اگر آفتاب است یک ذرہ نیست وگر ہفت دریاست یک قطرہ نیست ترجمہ 1:جب وہ سلطانِ عزت یعنی حق سبحانہٗ تعالیٰ اپنی جلالتِ شان کے ساتھ عارف کے قلب میں تجلیاتِ قرب عطا کرتے ہیں تو عارف کو معیتِ خاصۂ الہٰیہ کے انوار کے سامنے تمام جہاں کالعدم معلوم ہوتا ہے اور بزبان ِ حال وہ کہہ اٹھتا ہے ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے ترجمہ2:اگر آفتاب روشن ہے تو اس کے سامنے ایک ذرّۂ روشن بے قدر ہے اور اگر ہفت دریا موجود ہے تو اس کے سامنے ایک قطرہ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اور بندہ خدا کا مقرب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اتباع سنتِ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اختیارکرتا ہے اور یہ توفیق عادتاً اہل اللہ اور مشایخ ومقبولانِ بارگاہِ حق کی صحبتِ طویلہ کے فیضان سے نصیب ہوا کرتی ہے ؎ ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا اکبرؔ