رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھ رہے تھے ( یعنی سورۂاَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اے لوگو! تم اپنے مال کی زیادتی پر باہم فخر کرنے کے سبب آخرت کے خیال سے بے پروا ہوگئے ہو یعنی مال کی زیادتی پر فخر کرنے کی وجہ سے تمہارے قلوب میں اندیشہ ٔ آخرت باقی نہیں رہا ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آدم کا بیٹا میرا مال میرا مال کہتا رہتا ہے حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ آدم کے بیٹے! تیرے مال میں سے تجھ کو کچھ نہیں ملتا مگر صرف اتنا جتنا کہ تونے کھایا اور خراب کردیا، پہنا اور پھاڑ ڈالا، اور خیرات کردیا اور آخرت کے لیے ذخیرہ کیا۔ تشریح: آدمی مال کے بڑھانے کی فکر میں آخرت کے اعمال سے غافل ہوجاتا ہے جس کے سبب پردیس کا امیر اور وطنِ آخرت کا قلّاش اور مفلس ہوجاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا نادانی ہوسکتی ہے ! حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ 14۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ ؎ ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غنا ( دولت مندی ) اسباب وسامان کی زیادتی پر نہیں ہے بلکہ (حقیقی)غنا دل کی دولت مندی سے ہے ( دل غنی ہونا چاہیے مال ہو یانہ ہو )۔ تشریح:اور دل کی مال داری حاصل ہوتی ہے تعلق مع اللہ کی برکت سے۔ جب بندہ خدا کا مقرب ہوجاتا ہے تو خالقِ کائنات کے قرب کی دولت کے سامنے تمام کائنات کی شان وشوکت اسے بے قدر اور ہیچ دکھائی دیتی ہے جس طرح ستاروں کی روشنی اور ان کی کثرت ایک آفتاب عالمتاب کے سامنے کالعدم ہوجاتی ہے ؎ ------------------------------