رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اور پھر چراگاہ کی طرف لوٹ پڑا اور گھاس کو کھایا۔( یہی حال انسان کا ہے۔ جب اس کو مال ملتا ہے تو وہ بے دریغ خرچ کرتا ہے اور معاصی میں مبتلا ہوجاتا ہے) اور دنیا کا یہ مال سبز اور خوشگوار تروتازہ اور لذیذ ہے ۔ جو شخص اس کو جائز طریقہ پر حاصل کرے اور جائز مصارف میں صَرف کرے تو یہ مال بہترین مدد گار ہے، اور جو شخص اس کو ناجائز طریقہ پر حاصل کرے تو یہ مال اس کے حق میں اس شخص کے مانند ہو جاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا،اور یہ مال قیامت کے دن اس کا شاہد ہوگا ( یعنی اس کے اسراف وغیرہ کی شہادت دے گا ) ۔ تشریح:دنیا کی دولت جب آتی ہے تو آدمی میں عیش اور آرام کی فکر اور آخرت سے غفلت شروع ہوتی ہے اور دل میں بڑائی اور جاہ پیدا ہوتی ہے۔تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں:ایک تو وہ جو دنیا کی محبت میں آلو دہ نہ ہوئے، دوسرے وہ جو آلودہ ہوئے پھر توبہ کرکے پاک وصاف ہوگئے، تیسرے وہ جو بدون توبہ ناپاک اور آلودہ ہوگئے۔اللہتعالیٰ حفاظت فرمائے۔حضرت خواجہ عبید اللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ دنیا مانند سانپ کے ہے اور سانپ کو لینے سے پہلے اس کا منتر سیکھنا ضروری ہے اور منتر یہ ہے کہ علم حاصل کرے کہ کہاں سے حاصل کرنا جائز ہے اور کہاں خرچ کرنا چاہیے اور وضاحت اس کی حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح فرمائی کہ منتر اس کا تقویٰ ہے اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے متقی بندے کی صحبت سے۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث تائید کرتی ہے اس ارشاد کی کہ لَابَاْسَ بِالْغِنٰی لِمَنِ اتَّقَی اللہَ عَزَّ وَجَلَّ۔’’مال داری مضر نہیں اس کو جو ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ سے۔‘‘ 13۔ عَنْ مُّطَرِّفٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ اَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَقْرَأُ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ قَالَ یَقُوْلُ ابْنُ اٰدَمَ مَالِیْ مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَّکَ یَا ابْنَ اٰدَمَ اِلَّا مَا اَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَاَبْلَیْتَ اَوْ تَصَدَّقْتَ فَاَمْضَیْتَ؎ ------------------------------