رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
وَضَعَہٗ فِیْ حَقِّہٖ فَنِعْمَ الْمَعُوْنَۃُ ھُوَ وَمَنْ اَخَذَہٗ بِغَیْرِ حَقِّہٖ کَانَ کَالَّذِیْ یَاْکُلُ وَلَایَشْبَعُ وَیَکُوْنُ شَھِیْدًا عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؎ ترجمہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے مرنے کے بعد تمہارے لیے میں جن چیزوں سے ڈرتا ہوں ان میں دنیا کی تروتازگی اور زینت بھی ہے جو ( فتوحات حاصل ہونے کے بعد ) تمہارے سامنے آئے گی، ایک شخص نے ( یہ سن کر ) عرض کیا: کیا بھلائی اور خیر اپنے ساتھ بُرائی اور شر کو لائے گی ( یعنی مثلاً فتوحات کے سلسلے میں جو مالِ غنیمت حاصل ہوگا کیا وہ بدی کو بھی ساتھ لائے گا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( یہ سن کر ) خاموش ہوگئے (اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے ) یہاں تک کہ ہم نے یہ خیال قائم کرلیا کہآپ پر وحی نازل ہورہی ہے، راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وحی نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے چہرۂ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور پھر فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟گویا آپ نے سائل کے سوال کو قابلِ تعریف سمجھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلائی بُرائی کو ساتھ نہیں لاتی ( اور اس کی مثال یہ ہےکہ ) بہار کا موسم جو سبزہ اُگاتا ہے ( وہ بھلائی ہے اور کسی قسم کی بُرائی اس میں نہیں لیکن ) وہ جانور کا پیٹ پھلا کر اس کو مار ڈالتا ہے یا ہلاک ہونے کے قریب پہنچادیتا ہے ۔ (بُرائی سبزہ میں نہیں جانور کے فعل میں ہے یعنی گھاس کھانے والے جانور نے گھاس اس طرح کھائی کہ اس کا پیٹ خوب بھر گیا اور ) اس کے دونوں پہلو تن گئے (یعنی اس نے سبزہ کھانے میں حد سے تجاوز کیا اور ضرورت سے زیادہ کھالیا جو بُرائی اور خرابی کا باعث ہوا) پھر وہ دھوپ میں بیٹھا ( جانور کی عادت ہے کہ جب اس کا پیٹ اپھر جاتا ہے تو وہ دھوپ میں جا بیٹھتا ہے تاکہ دھوپ کی گرمی سے پیٹ نرم ہوجائے ) پتلا گوبر کیا اور پیشاب کیا ( یعنی دھوپ کی گرمی نے پیٹ کو نرم کرکے پیشاب اور پاخانہ کو خارج کردیا ) ------------------------------