رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
تشریح:قناعت کا مفہوم یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہے۔ اگر قناعت نہ ہوگی تو مال کی حرص آخرت کی تیاری کے لیے اس کو فرصت نہ دے گی۔ پس اس حدیثِ پاک سے قناعت کی نعمت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے ؎ کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شد تاصدف قانع نہ شد پُر دُر نہ شد حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حریصوں کی آنکھ کا کوزہ کبھی پُر نہ ہوا اور سیپ جب تک قناعت نہیں اختیار کرتی یعنی اپنے حرص کا جب تک منہ بند نہیں کرتی اس میں موتی نہیں بنتا۔حدیثِ مذکور میں اسلام کی نعمت کے بعد قناعت کے ذکر سے اُمت کو یہ تعلیم دی گئی کہ قناعت سے وقت فارغ ہوتا ہے جو آخرت کی تیاری میں استعمال ہو کر فلاحِ اُخروی کا سبب بنتا ہے۔ 10-وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِیْ مَالِیْ وَاِنَّ مَالَہٗ مِنْ مَالِہٖ ثَلٰثٌ مَّااَکَلَ فَاَفْنٰی اَوْلَبِسَ فَاَبْلٰی اَوْاَعْطٰی فَاقْتَنٰی وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَھُوَ ذَاھِبٌ وَتَارِکُہٗ لِلنَّاسِ؎ ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ انسا ن اپنے مال کو فخر سے کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا مال اس کے جمع شدہ مال سے صرف تین چیزیں ہیں: ایک تو جو اس نے کھالیا اور ختم کردیا ، دوسرے وہ جو اس نے پہن لیا اورپرانا کرکےپھاڑ دیا اور تیسرے وہ جو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور ذخیرۂ آخرت بنالیا۔ان تینوں چیزوں کے علاوہ جو مال اس کا ہےوہ دوسروں کے لیےچھوڑنے والا ہے وہ اس کا نہیں ہے۔ تشریح :اس حدیث شریف سے دنیا کی حقیقت کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جس کو اپنا مال سمجھتے ہیں وہ صرف تین چیزیں ہیں پھر دوسروں کے لیے چھوڑنے کے لیے کیوں آخرت تباہ کریں۔ ------------------------------