رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
نے فرمایا کہ اے اللہ تعالیٰ! تو محمد کی آل ( اہلِ بیت وذرّیات ) کو صرف اتنا رزق عطا کر جو ان کی جان بچائے اور بدن کی قوّت کو قائم رکھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ صرف اتنا رزق عطا کر جو ان کی زندگی باقی رکھنے کے لیے کافی ہو۔ تشریح:چوں کہ دنیا کی حقیقت اور اس کے نقصانات کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح علم عطا ہوا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل اور اہل وعیال کے لیے دنیا کو خدا سے بقدرِ ضرورت طلب فرمایا۔ حق تعالیٰ اپنی رحمت سے ہم سب کی نگاہوں میں پیغمبر علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں دنیا کی ناپائیداری اور بے وقعتی دکھادیں اور توفیقِ عمل بخشیں،آمین۔ صاحبِ مظاہرِ حق لکھتے ہیں کہ آلِ رسول سے یہاں مراد اہلِ بیت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پرچلنے والے اور دوست کامل ہیں اور دوسرےمعنیٰ کو ترجیح دی گئی ہے۔؎ اور کَفَافْ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اتنی روزی حاصل ہو جو دوسروں سے سوال کرنے سے بے پروا کردے۔ بعض کے نزدیک کَفَافْاور قوت کے ایک ہی معنیٰ ہیں۔ اور علماء نے لکھا ہے کہ روزی بقدرِ ضرورت (کَفَافْ) افضل ہے فقر اور غنا سے،اور جو مال داری سبب گمراہی اور اسراف نہ ہو بلکہ نیکی اور عبادت کا سبب ہو تو وہ فضیلت اور طرح کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا صرف بقدرِ ضرورت مطلوب ہے اور ضرورت کی تعریف حضرتِ اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کی ہے کہ ضروری وہ ہے جس کے نہ ہونے سے ضرر ہو خواہ دنیا کا یا آخرت کا۔ 9 -وَعَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَہُ اللہُ بِمَا اٰتَاہُ ؎ ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہ اس شخص نے فلاح پالی جس نے اسلام قبول کرلیا اور بقدرِ ضرورت رزق دیا گیا اور خدا نے اس کو اس چیز پر جو اس کو دی گئی قناعت بخشی ۔ ------------------------------