رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو) میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کرسکتا۔ اور اے عبد مناف کی اولاد ! میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں کرسکتا ۔ اے عباس بن عبد المطلب ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اور اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ !میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ ! میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے لیکن میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ تشریح: اس حدیث سے اُمت کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محنت کی طرف متوجہ کیا گیا تو آج کس احمق ونادان کا منہ ہے کہ پیروں یا اولیاء کی سفارش پر یا خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بھروسے پر یا حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کے بھروسے پر گناہوں اور سرکشی پر جری اور گستاخ ہو اور نیک اعمال سے بے پروا ہو ۔ خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جو حق تعالیٰ شانہٗ کے لاڈلے اور محبوب رسول ہیں اور ایسے محبوب ہیں جو آپ کے نقش قدم کی اتباع کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاوے کس قدر عبادت فرماتے تھے کہ طولِ قیام سے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا تھا، تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت پر بھروسے کا پُرفریب دعویٰ کرکے نیک اعمال سے کاہل اور گناہوں میں چست وچالاک بنے ہیں یہی لوگ حق تعالیٰ کی دوسری صفت رزاقیت پر بھروسہ کرکے گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ روزی کے لیے مارے مارے سرگرداں وپریشاں دربدر چکر کاٹتے ہیں اور کس کس خاکِ آستاں کو بوسہ دیتے ہیں اور آخرت کے معاملے میں اپنی غفلت اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے توکل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ کیسا توکل ہے کہ ایک صفت پر توکل ہو اور دوسری صفت پر توکل نہ ہو تو یہ توکل تو اپنے مطلب کا توکل ہُوا ؎ مصطفےٰ فرمودہ با وازِ بلند برتوکل زا نوئے اشتر بہ بند